ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ کا بیٹا حمزہ بن لادن فرار ہونے میں کامیاب ہوگیااوراب اس نے اپنے والد کی موت کا انتقال لینے کی قسم کھائی ہے
فارن ڈیسک
ایبٹ آباد میں دنیا کے سب سے مطلوب شخص القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو خفیہ کارروائی میں ہلاکت کے دعوی کے بعد سوال یہ پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا القاعدہ بکھر جائے گا؟ اس میں قیادت کے مسئلے میں پھوٹ پڑ جائے گی اور گروپ علاقوں میں تقسیم ہو جائیں گے؟ اس طرح کے کئی سوال سامنے آرہے ہیں۔ اسامہ بن لادن پر جس وقت حملہ ہوا اس وقت ان کے افراد خاندان ساتھ تھے۔ ان کے ایک فرزند کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے ۔ جن کا نام خالد بن لادن ہے۔ لیکن اس مہم میں اسامہ کے ایک 20سالہ فرزند حمزہ بن لادن بچ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حمزہ بن لادن نے اب اپنے والد کی موت کا انتقال لینے کی قسم کھائی ہے۔ امریکہ نے حملے کے فوری بعد کہا تھا کہ لڑائی میں اسامہ کا ایک بیٹا حمزہ اپنے باپ کا بچاؤ کرتے ہوئے مارا گیا لیکن جب بعد میں نعشوں کی شناخت ہوئی تو ان میں حمزہ موجود نہیں تھا۔ امریکی کمانڈوز خالد کی نعش کو حمزہ کی نعش سمجھ کر اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کیونکہ حمزہ بھی امریکہ کی مطلوب فہرست میں شامل تھا۔ حمزہ کے بڑے بھائی سعد بن لادن پر 2002ء میں تیونس میں ایک یہودی عبادت خانے پر ہوئے بم حملے کی ذمہ داری عائد کی جاتی رہی۔
حمزہ بن لادن کو امریکہ نے’’ دہشت گرد شہزادے ‘‘کا نام دے رکھا ہے ۔ کیونکہ اسامہ کے فرزندوں کے جہادی سرگرمیوں سے متعلق اگر کسی کی سب سے زیادہ ویڈیوز ہیں تو وہ حمزہ بن لادن کے ہیں۔ اسامہ کی 5بیویاں اور 23بچے ہیں لیکن ان میں حمزہ کی القاعدہ کے مستقبل کے طور پر تربیت دی گئی۔ 10سال کی عمر میں ہی حمزہ نے AK47 رائفل چلانا سیکھ لیا۔حمزہ کی والدہ خیرہ حبر ان خواتین میں شامل ہیں جو امریکی حملے کے بعد سے پاکستان کی قید میں ہیں ۔ بن لادن نے ان سے 1985 میں شادی کی تھی ۔ حمزہ کا جنم1991کوہوا۔ جس وقت القاعدہ نے 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا تھا اس وقت حمزہ کی عمر 10سال تھی اور وہ طالبان کے تربیتی کیمپوں میں اکثر دیکھے جاتے تھے ۔
حمزہ کو القاعدہ کے کئی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دراصل پاکستان کی قید میں موجود خواتین کے بیانات سے ہی یہ اندازہ ہوا کہ حملے کے دو ران حمزہ نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ سی آئی اے کے عہدیدار اس کو پاکستان کی قبائلی پٹی میں تلاش کررہے ہیں۔ حمزہ کا ایک ویڈیو2001ء میں آیا تھا جو اس کے بھائی محمد کی شادی کے موقع پر لیا گیا تھا ۔ جنگجوؤں کا لباس پہنے ہوئے حمزہ کو اپنے والد اسامہ کی تعریف میں نظم پڑھتے دکھا یا گیا ہے 2005ء میں جب اس کی عمر 15سال تھی تو اس کو افغانستان کی سرحد پر ایک قبا ئلی علاقے میں جہاد پر بنائی گئی فلم میں بھی دکھایا گیا۔ لندن میں جولائی 2007ء کو ہوئے بم دھماکوں کی تیسری سالگرہ کے موقع پر اس کی آواز پر مشتمل ایک ٹیپ منظر عام پر آیا تھا ۔ جس میں برطانیہ ، فرانس اور ڈنمارک کو تباہ کردینے کی اپیل کی گئی تھی۔
حمزہ کا نام پاکستان کی مرحوم وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے معاملے میں بھی لیا جاتا ہے۔ سعد اورحمزہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ سعد پاکستان میں 2002ء میں امریکہ کے ایک ڈرون حملے میں جاں بحق ہوگیا تھا لیکن طالبان نے اس کی تردید کی تھی۔
اسامہ نے افغانستان میں اپنے قیام کے دوران تمام بیٹوں کو جمع کر کے انہیں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی تھی۔ لیکن ان کے چند بیٹوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔9/11 کے بعد اسامہ کے جو بیٹے ، بیٹیاں بالغ تھے انہوں نے سعودی عر ب میں ہی رہنے کو ترجیح دی اور باپ کے ساتھ افغانستان نہیں گئے۔ اس گروپ میں عبداللہ، علی اور عمر شامل ہیں۔ عبداللہ فیم ایڈورٹائزنگ کے نام سے مارکیٹنگ کمپنی چلاتے ہیں ۔ عمر ایک اسکریپ ڈیلرہے۔ دونوں جدہ میں ہیں ۔ عمر نے برطانیہ کی ایک فیشن ڈیزائنر سے شادی کر لی۔ اگرچہ سعودی عر ب میں رہنے والے بن لادن کے بچے مغربی طرز کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ ان کے بھائی عثمان سعد، حمزہ اور سعد افغانستان میں باپ کی طرح سادہ زندگی گذار رہے تھے۔ عثمان اور محمد ایران کی قید میں ہیں۔ جب کہ سعد، حمزہ اور خالد اپنے والد کے ساتھ سرگرم تھے ۔ سعد ڈرون حملوں میں مارے گئے ، خالد ایبٹ آباد کی کارروائی میں جاں بحق ہوگئے۔ اب صرف حمزہ باقی ہیں چونکہ حمزہ ابھی نوجوان اوناتجربہ کارہے اس لیے اسے فوری القاعدہ کی قیادت نہیں مل سکی۔ حمزہ کے پاس اب جہاد کے علاوہ ایک اور مقصد والد کی موت کا انتقام بھی ہے۔ چنانچہ امریکہ کو القاعدہ سے زیادہ اس کی فکر ہونے لگی ہے۔