برطانوی وزیراعظم کیمرون تاریخ میں عالمی لیڈر کے طور پراپنا نام زندہ رکھنا چاہتے ہیں توانہیں مسئلہ کشمیر کی دورۂ بھارت کے موقع پر بات کرنی چاہیے
ڈاکٹر سمیرا درانی
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بالا آکراس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ مسئلہ کشمیر برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے تاہم حیرت کی بات اور افسوس کا مقام ہے کہ دوسرے ہی سانس میں اعتراف حقیقت کے باوجود ڈیوڈ کیمرون نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ اصولاً جب ڈیوں کیمر ون نے مسئلہ کشمیر برطانیہ کا پید کردہ ہونے کا اعتراف کیا تھا توان کا فرض یہی تھا کہ برطانیہ اپنی معاشی مفادات سے ہٹ کر اپنے ہی پیدا کردہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عملاً تاریخی کردار ادا کرتا لیکن کیمرون نے ایسا نہیں کیا ۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈں کیمرون اگر تاریخ میں ایک عالمی لیڈر کے طور پر اپنا نام زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مسئلہ کشمیر کی دورۂ بھارت کے موقع پر نہ صرف بات کرنی چاہیے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کروانا چاہیے۔ تصواب رائے کے ذریعے جس کا وعدہ خودبھا رت کے وزیراعظم نہرو نے کیا تھا۔
اکتوبر 1947ء کو بھگوڑے کشمیری راجہ کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچانے کی کارروائی سے بھی گھٹنے پہلے ہی بھارتی فوج انڈین ایئربیسز سے روانہ کی جا چکی تھی اور 27 اکتوبر کی صبح 9 بجے بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتر رہے تھے۔ ساتھ ہی کشمیر کو بھارت سے ملانے والی واحد سڑک سے سول اور ملٹری ٹرانسپورٹ کے ذریعے دوسری افواج کو فوری طور پر پہنچنے کا حکم دیا گیا۔ یہ وہی سڑک ہے جو ریڈ کلف نے غالباً اکثریتی مسلم علاقہ کو گورداسپور کو بھارت کے حوالے کرکے اسے مہیا کی۔ بیٹن نے مہاراجہ کو الحاق کی منظوری کا جو مراسلہ 27 اکتوبر کو بھیجا تھا اس میں یہ تجویز تھا کہ اس پالیسی کے مطابق کہ جہاں کہیں الحاق کا سوال متنازعہ ہو، الحاق کا مسئلہ ریاست کے عوام ہی کی مرضی کے مطابق طے ہو ،میری حکومت کی یہ خواہش ہے کہ کشمیر میں جونہی ا من بحال ہو جائیں اور ان کی سرزمین حملہ آوروں سے خالی ہو جائے تو پھر ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی مرضی سے طے کیا جائے گا۔ مہاتما گاندھی نے 29 اکتوبر کو اپنی براتھنا والی تقریر میں کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب مہاراجہ نے اپنی مصیبت سے گھبرا کر انڈین یونین سے الحاق کی درخواست کی تو گورنر جنرل اس تجویز کو ردنہیں ہی کر سکتے تھے چنانچہ کشمیر میں اس سمجھوتے کی بنائی ہوئی فوجی بھیجی گئیں کہ یہ الحاق کشمیر ایک غیرجانبدارانہ استصواب رائے کے ساتھ مشروط ہے۔
30 اکتوبرکو وزیراعظم بھارت پنڈت نہرو نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو یک تار میں کہا کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات اور ان کی رائے کے مطابق ہوگا۔ ہماری یہ یقین دہانی کہ جونہی امن قائم ہوگا ہم اپنی فوجیں کشمیر سے ہٹا لیں گے صرف آپ کی حکومت سے ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام اور پوری دنیا سے کیا ہوا ہمارا عہد ہے۔ حکومت پاکستان نے اس الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ یہ اقدام فریب اور تشدد پر مبنی ہے۔ کشمیر کے الحا ق کے مطابق لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی اس الحاق کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ الحاق دھوکہ ہے کیوں کہ اسے حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے گئے جن کا مقصد الحاق کے ڈھونگ کا جواز پیدا کرنا تھا۔
کشمیری آزادی کی قیمت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ادا کر رہے ہیں۔ کشمیر میں بدترین شکست بھارتی فوج کا مقدر اور آزادی کشمیریوں کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ مشرقی تیمور کی آزادی کے لیے الگ معیار اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانے حل طلب مسئلہ کشمیر کے لیے دوسرا معیار امریکہ یورپ اور اقوام متحدہ کے بدترین تعصب اور دوہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عالمی برادری اور دنیا کی بااثر طاقتیں کشمیریوں کو مسلمان ہونے کی سزا دے رہی ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے ہا ہا کار مچانے والے کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر برلب کشائی کیوں نہیں کرتے۔ جب کوئی کشمیر ی اپنی دفاع میں پتھر اٹھاتا ہے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ بھارت کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کرتا جبکہ امریکی اور یورپی میڈیا بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارتی فوج نے اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق تحریک آزادی کشمیر جاری رکھے ہوئے نہتے کشمیریوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کے ایجنڈے کے تحت قتل عام کی مہم شروع کر دی رکھی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ کو چاہیے کہ کشمیریوں کے بچاؤ کے لیے اپنی انسانی ذمہ داریاں نبھائے۔ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں؟ سچ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ میں منظور کردہ قراردادوں کے مطابق استصوراب رائے کا حق دیا جائے۔