امریکی وہائٹ ہاؤس میں ہر شخص اسرائیلی لابی کی جیبوں
میں ہے اور اسے بھر پور مالی امداد ملتی ہے ہیلن تھامس
سید لیاقت حسین
کہا جاتا ہے کہ عمر رسیدہ لوگوں کی عقل چرخ ہو جاتی ہے یا وہ سٹھیا جاتے ہیں وغیرہ لیکن میرے خیال سے 90 سال کی ہو جانے پر بھی معروف امریکی صحافی ہیلن تھامس اپنے مکمل ہوش و حواس میں ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں وہ اپنے خیالات کے لئے عیسائیوں اور بالخصوص مغربی میڈیا میں ایک متنازع شخصیت بن گئی ہیں بلکہ ان کے خلاف ایسی نفرت پھیلا دی گئی ہے کہ وہ یہودی نواز امریکیوں اور یورپ کے عیسائیوں کے عتاب کا نشانہ بن گئیں۔
دنیا بھر کی صیہونی طاقتیں اس وقت چراغ پا ہو گئیں جب ہیلین نے امریکہ کے پلے بوائے میگزین سے تازہ ترین انٹرویو میں یہ کہا کہ امریکی وہائٹ ہاؤس اور کانگریس مکمل طور سے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔
ہیلن جو کہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے تک وہائٹ ہاؤس سے منسلک تھیں اور 10 امریکی صدر کا دور دیکھ چکی ہیں اور وہاں صفحہ اول کی نشست پر مستقل بیٹھا کرتی تھیں۔ گزشتہ سال وہ اپنے ایک بیان کے بعد وہاں سے ہٹا دی گئی تھیں۔ ان کا اس وقت کا بیان اسرائیل اور فلسطین کے تعلق سے تھا۔ گذشتہ چند سالوں سے ان کے اسرائیل اور یہودیوں سے متعق متنازع بیانات پر یہودی نواز امریکی ذرائع ابلاغ میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں، وہائٹ ہاؤس اور امریکہ کے دیگر بہت سے حساس اداروں کے بارے میں ان کا کہنا ہے ککہ یہ سب مکمل طور پر یہودیوں کے قبضے میں ہیں اور ان کا ہر شخص اسرائیلی لابی کی جیبوں میں ہے۔
ہیلن نے تفصیل میں جانتے ہوئے کہا کہ یہودی اپنی طاقت کا بے جا استعمال کر رہے ہیں اور وہ اپنا قبضہ ہر سمت میں پھیلائے ہوئے ہیں۔ وہاٹ ہاؤس پر قبضہ، کانگریس پر قبضہ۔۔۔ ہر شخص اسرائیلی لابی کی جیبوں میں ہے اور اسے بھرپور مالی امداد ملتی ہے جن میں سے امداد دینے والیے ہالی وڈ کے بڑے بڑے اداکار بھی ہیں۔ یہی حال معیشت کے بازاروں کا ہے اس طریقے سے مکمل قبضہ یہودیوں کا ہے۔
ہلین نے کہا کہ امریکہ میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہے، یہودی کارفرمائیاں کھلے عام جاری ہیں۔ ہیرسٹ کارپن نے انہیں سال گزشتہ جون میں صرف اس بات پر اپنی کمپنی سے نکال دیا تھا کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سرزمین فلسطین سے یہودیوں کو نکال پھینک دیا جانا چاہیے اور یہ کہ انہیں پولینڈ، جرمنی اور امریکہ میں اپنے گھروں کو واپس بھیج دیا جانا چاہیے۔ حالیہ انٹرویو میں بھی ہیلن نے اپنے پچھلے سال کے بیانات پر کوئی افسوس کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ اپنے یقین کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں کو رہنے کا حق بے شک ہے مگر صرف وہاں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے جز بز ہو کر کہاکہ مجھے یہ سب کیوں نہیں کہنا چاہیے؟ میں جانتی ہوں کہ میں کیا کر رہی ہوں میں جو کہہ رہی ہوں، بہت سوچ سمجھ کر کہہ رہی ہوں میں ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہوں جہاں سے کوئی واپسی نہیں ہے جہاں ہر کوئی بیزار ہو جاتا ہے۔
ہلین نے بہرحال یہ ضرور کہا کہ وہ یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں وہ دل والے لوگ ہیں مگر صرف دوسروں کے لئے ، عربوں کے لیے نہیں۔ میں ان کے خلاف نہیں ہوں، میں صہیونیوں کے خلاف ہوں۔ یہودیوں کے اپنے مکان واپسی کے حوالے سے انہوں نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ ان کو اپنی جائے پیدائش میں اس لیے رہنا چاہیے کہ اب جنگ عظیم دوئم کے بعد ان کا کہیں بھی استحصال نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ہو رہا ہوتا تو دنیا اس سے ناواقف نہیں رہتی۔
یہودیوں کے دباؤ میں آ کر اب یکے بعد دیگرے بہت سے اداروں نے ہیلن سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کر دی ہے، اسرائیل سے متعلق بیانات پرایک ایجنسی نائن سپیکرز نے بھی ہیلین کو برطرف کر دیا ہے۔ نائن ک صدر ڈائن نائن نے بہرحال ہیلن کی تعریف کی لیکن ساتھ میں یہ کہا کہ ان کی ایجنسی ہیلن کو بے دخل کر دے گی، کیونکہ ہم ان کے بیانات کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو انہوں نے مشرقی وسطی کے سلسلے میں دئیے اور نائن سپیکرز اب ان کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکی ایڈمنسٹریشن اور بالخصوص حالیہ اور سابق صدارتی عملہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے ہیلن کی دل کھول کر مذمت کر ڈالی۔ ان میں سے کئی ایک نے یہ تک کہہ ڈالا کہ وہ تمام ادارے میں جس سے ہیلن وابستہ ہیں وہ انہیں فوری برطرف کر دیں۔
ہیلن جنہوں نے اپنا صحافتی کیرئیر 1943 ء میں شروع کیا تھا، مشرقی وسطی کے سلسلے میں ہمیشہ سے ہی دبنگ رہی ہیں۔ وہ چونکہ لبنان نژاد ہیں، اس لئے عربوں اور بالخصوص فلسطینوں کے لیے ان کے دل میں ایک نر مگوشتہ ہے۔ اپنے اس طویل صحافتی سفر میں وہ زیادہ تر فلسطینیوں کے کاز کو ہی لے کر آگے رہی ہیں۔ وہ وائٹ ہاؤس پریس کورگی ڈین کہلاتی رہی ہیں تو ان کو اتنی عزت سے نواز بھی جاتا رہا ہے اور گزشتہ سال اگست میں امریکی صدر براک اوباما نے ان کے 90 ویں یوم پیدائش پرنیوز روم میں بہ نفس نفیس آ کر ذاتی طور سے مبارکباد بھی دی تھی اور تحفوں سے بھی نوازا تھا۔ وائٹ ہاؤس نیوز روم میں یہ ان کا خصوصی دورہ تھا جو انہوں نے صرف ہیلن کو نوازنے کے لیے کیا تھا۔ ہلین امریکی نیشنل پریس کلب کی پہلی خاتون افسر تھیں وہ وائٹ ہاؤس کارسپانڈنٹ ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر تھیں اور انہوں نے 10 امریکی صدر کی پریس کانفرنسیں کور کی ہیں۔
یہودیوں کے سلسلے میں ہیلن نے پچھلے ماہ یعنی فروری میں سی این این کو ایک انٹرویو میں پھر کہ جنگ عظیم کے بعد اب یہودیوں کو یورپ چھوڑنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب ان کا استحصال کہیں نہیں ہو رہا ہے بلکہ الٹا یہ ہو رہا ہے کہ وہ دوسروں کی زمین پر قبضہ جما رہے ہیں۔
سی این این کے انٹرویو میں ہیلن نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہودی پولینڈ اور جرمنی واپس چلے جائیں تو مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ روس بھی واپس چلے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیلن نے سی این این کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہر شخص نے میریے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ انہوں نے خاص طور سے سابق صدر جارج بش کے پریس سکیرٹری اور وائٹ ہاؤس کے سابق ترجمان ایری فلیشر کا نام لیا جنہوں نے ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے میڈیا کے ذریعے پیش کیا۔
وائٹ ہاؤس اور دوسرے اداروں سے متلعق ہیلن نے کہا کہ انہوں نے باقاعدہ اسرائیل کے حق میں بولنے والے تعینات کر رکھے ہیں وہاں آپ اپنا منہ نہیں کھول سکتے۔ اگر آپ نے ایک لفظ بھی اسرائیل کے خلاف کہا تو آپ حدود سے باہر کر دئیے جائیں گے۔
پلے بوائے میگزین کے کنٹری بیوٹر ڈیوی ہوچمین سے تازہ ترین انٹرویو کے دوران اسرائیلی کے خلاف فلسطینیوں کی جنگ کے متعلق سوال پر ہیلن نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی تشدد کو نہیں سراہا ہے لیکن پھر کون فلسطینیوں کی سرزمین کے لئے لڑے گا۔ کوئی بھی امریکی کیا کرے گا اگر کوئی ان کی زمین پر قبضہ کر لے تو؟ فلسطینیوں کا تشدد تو ان کو اپنی تھوڑی سی بچی زمین کے تحفظ کے لیے ہے اور فلسطینی خود کش حملے فطرتاً اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے ہیں۔ اسرائیلیوں نے تو ان کی تین پشتوں کو نکال باہر کیا ہوا ہے ان میں سے ان گنت تو مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔