Quantcast
Channel: Fact News »بین الاقوامی سیاست
Viewing all 20 articles
Browse latest View live

عرب ممالک میں بغاوت سعودی عرب کےشہریوں کی موجیں

$
0
0

سعودی فرمانروا کی جانب سے شاہی خاندان کے خلاف بغاوت سے باز رکھنے کیلئے گاڑیاں، بنگلے اور رقوم دینے کا سلسلہ جاری ہے


تیونس اور مصر کے دیگر عرب ممالک میں پھوٹ پڑنے والی بغاوت کے بعد سعودی عرب کے عام شہریوں کی موجیں ہو گئی ہیں۔ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ اور دیگر با اثر شہزادوں کی جانب سے لوگوں کو حکومت اور شاہی خاندان کے خلاف بغاوت سے باز رکھنے کیلئے مختلف پیکجز کے نام پر پڑے پیمانے پر مراعات، گاڑیاں، بنگلے اور رقوم دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں تیزی اس وقت آئی جب معاشی طور پر انتہائی مستحکم ملک لیبیا میں تجزیہ نگاروں کی توقعات کے برعکس انتہائی شدید عوامی احتجاج اور بغاوت کی لہر اٹھی۔ واضح رہے کہ مصر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد عرب اور مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ معاشی طور پر مستحکم اور خوشحال عرب ملک لیبیا میں صدر قذافی کے خلاف عوامی بغاوت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی توقعات کے برعکس وہاں انقلابیوں نے مصر اور تیونس کے مقابلے میں انتہائی شدت کے ساتھ اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بغاوت کی طاقتور عوامی لہر کے سامنے بظاہر مضبوط نظر آنے والے معمر قذافی کمزور پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ خطے میں عوام کے اس رجحان کی وجہ سے دیگر ممالک کے حکمرانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ عوام کو مطمئن کرنے کیلئے پرکشش مراعات اور اصلاحات کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس صورت حال کا فائدہ سعودی عوام کو یوں ہوا کہ سعودی عرب انتہائی بااثر اور دنیا کے دولت مند ترین شخص شہزادہ طلال بن ولید کی جانب سے جدہ کے ان غریب شہریوں کو ایک ہزار گاڑیاں مفت دینے کا اعلان کیا گیا ہے، جو حال ہی میں آنے والے سیلاب میں اپنی گاڑیاں گنوا بیٹھے ہیں یا غربت کے سبب ان کی مرمت کرانے سے قاصر ہیں۔ ان کے لئے جرمنی سے کاریں درآمد کی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ شہزادہ ولید بن طلال کی فلاحی تنظیم کی جانب سے مستحقین میں بغیر کسی مفاد کے کاروں کی تقسیم کا اعلان کیا گیا ہے ان کا مقصد محض پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا ہے۔

کیا مشرق وسطی میں نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے؟

$
0
0

ممکن ہے کہ یہ مسلم دنیا میں نظام کے بجائے چہروں کی تبدیلی
کی کوئی سازش ہو،ایسا ہوا تو یہ بری خبرہوگی 
 

ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی
تیونس سے اٹھے عرب عوامی انقلاب کے طوفان میں دیکھتے ہی دیکھتے دو عرب آمروں کے تخت و تاج بہہ گئے۔ شروعات یونس کے آمر زین العابدین سے ہوئی، اس کے بعد مصر میں انقلاب آیا، اور 30 سال سے چلے آنیوالے حسنیٰ مبارک کا استبدادی نظام بکھر گیا۔ تیونس سے جس عوامی انقلاب کا شرار پھوٹا وہ اب جنگل کی آگ کی طرح پورے عالم عرب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ مصر میں حسنیٰ مبارک کے زوال کے ساتھ ہی بحرین، یمن، الجزائر، اردن، سیریا اور لیبیا میں زبردست عوامی لہر اٹھ رہی ہے۔ جس نے عرب آمروں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف مظاہرے شروع کر دئیے ہیں۔ اب عرب شاہوں اور آمروں کی نیند حرام ہو رہی ہے۔ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کے خلاف باقاعدہ بغاوت ہوئی اور باغی لیبیا کے دوسرے بڑے شہرن بن غازی سمیت کئی اہم شہروں پراپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالآخر عالمی برادری حرکت میں آئی۔ یو این اونے لیبا میں نو فلائی زون کا نفاذ کا اعلان کیا اور اس کے بعد امریکہ فرانس اور ناٹو کے دوسرے ارکانے نے متحدہ طور پر قذافی کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر دی۔ میزائل باری اور فضائی حملوں میں یقینی طور پر بہت سے معصوم شہری بھی مارے جا رہے ہیں۔ دوسرے وہ علاقے جو عوامی انقلاب کی زد میں ہیں۔ ان میں یمن بھی شامل ہے جہاں صد علی عبداللہ صالح کئی دہائیوں سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ یمن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عرب انتہا پسندی کی جڑ ہے کیوں کہ اسامہ بن لادن کا وطنی تعلق اصلا یمن سے ہی ہے۔ اس کا قبیلہ یمن میں ہی رہتا ہے۔ صدر علی عبداللہ صالح پر الزام ہے کہ وہ خط میں امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔ اس لیے اس کے منظور نظر ہیں۔ موصوف نے مغر ب کے اشارہ پر بیک جنبش قلم 15 ہزار مکاتب اور اسلامی دینی مدارس بند کر دئیے تھے۔
چوتھا بڑا پڑاؤ سعودی عرب سے بالکل ملا ہوا بحرین ہے جو اگرچہ عالم عرب کا سب سے چھوٹا ملک ہے حتی کہ کویت سے بھی چھوٹا۔ جہاں سنی اقلیت حکمران ہے۔ سعودی عرب بحرین کے انقلابی شورش پسندوں سے اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ انقلاب کی فطرت میں توسیع اور اپنے اثرات کو پھلانا ہوتا ہے۔ پھر ہم مسلک کی بنا پر بحرین کی اکثریت ایران کے کٹر شیعہ حکومت کی پوری حامی ہے۔ اس کے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے اور ایرانی اثرات وہاں بڑھ رہے ہیں ۔ مغرب کے لیے اس کی اہمیت یہ ہے کہ امریکہ کا ایک اہم اڈا قطر ہے اور دوسرا بحرین۔ اسی لیے بحرین کی حکومت عوامی شورش سے شدت سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سعودی عرب نے بحرین میں اپنی افواج بھیج دی ہیں۔ اس لیے بہت مشکل اور پیچیدہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ خطہ میں قائم استبدادی نظام کا اہم نشان اردن ہے جسے حسین آف مکہ اور انگریزوں کے درمیان ہوئے بدنام زمانہ سائلس پیکو معاہدہ کے نتیجہ میں زبردستی مغربی سامراج نے شام اور فلسطین کے بعض علاقوں کو کاٹ کر بنا دیا تھا اور اس کا حکمران شریف حسین کے ایک بیٹے کو بنا دیا تھا۔ اردن اسرائیل کا حلیف ہے۔ یہاں تک کہ سفارت کے ساتھ ہی جاسوسی میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اسرائیل کے پانی کے بیش تر وسائل کا منبع بھی اردن ہی ہے۔ اس کی اکثریت بھی فلسطینی باشندوں پر مشتمل ہے۔ اردن کے حکمرانوں نے بظاہر بعض اصلاحات کی طرف قدم بڑھائے ہیں مگر یہاں عوامی انقلاب اور موجودہ نظام کو ہٹانا شاید ابھی ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کا ڈائرکٹ پڑوسی ہونے کے ناطے وہاں کسی جمہوریت کا آ نا اور موجود حکومت کا جانا امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں نہ ہو گا۔ اس لیے یہ طاقتیں چاہیں گی کہ وہاں کچھ ظاہری اور سمی سی تبدیلیوں سے کام چلا لیا جائے جس سے ان کے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ بھی ہو جائے اور عوامی شورس بھی ختم ہو جائے۔
عالم عرب میں عوامی انقلاب کا ایک اور اہم ترین پڑاؤ شام ہے۔ شام میں بھی ایک ہی خاندان کی حکومت دہائیوں سے چلی آ رہی ہے جسے سابق فوجی صدر اور ظالم ڈکٹیٹر حافظ الاسد نے جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کر کے قائم کیا تھا۔ یہاں عوام سنی ہیں مگر ایک چھوٹی سی علوی نصیری شیعی اقلیت ان پر حکمران ہے۔ یہ غالی فرقہ خود شیعوں کے نزدیک اسلام (شیعیت) سے خارج ہے۔ جب روس سپر پاور ہوا کرتا تھا تو روایتی طور پر شام ، امریکہ کے مقابلہ روس کیساتھ رہا، اس بھی اس کی بظاہر امریکہ سے نہیں بنتی ہے۔ عراق کے صدام حسین سے اس کے تعلقات تھے۔ لبنان کے حزب اللہ ملائیشیا کا وہ حمایتی ہے اور بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت اور اسرائیل سے دشمنی مول لیے ہوئے ہے۔ چنانچہ حماس کی قیادت کو وہ پناہ دیتا ہے۔ حماس کی اس وقت سب سے بڑی شخصیت خالد مشعل جلا وطنی میں دمشق میں ہی قیام پذیر ہیں۔ وہ اس وقت ایران کا سب سے قریبی حلیف ہے اور اس وجہ سے امریکہ اور اسرائیل دونوں کے عتاب کا شکار ہیں۔
دوسری طرف دین پسندوں(اسلام پسندوں) کو شام میں دہائیوں سے ہر قسم کے ظلم و تشدد ، ٹارچر، تعذیب قید و بند کا شکار ہونا پڑا ہے۔ شام کے حافظ الاسد نے اسلام پسندوں کے مضبوط گڈھ شہر حماۃ پر اپنی فوج سے حملہ کیا اور 10 ہزار اخوان سے وابستہ افراد کو بمباری سے شہید کر ڈالا تھا۔ حقوق انسانی کی پامالی میں شام کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ ہزار ہا افراد آج بھی جیلوں میں قید ہیں۔ شام بھی اب عرب ملکوں میں سر فہرست ہے۔ جہاں نظام استخبارات (جاسوس ایجنسیاں) ہر روقت شہریوں کے پیچھے لگی رہتی ہیں اور پورے ملک کو کنٹرول کرتی ہے۔ شام میں بھی عوامی مظاہرے میں شروع ہو گئے ہیں مگر ابھی کوئی مضبوط شکل اختیار نہیں کی ہے۔ تا ہم یہ تو صاف ظاہر ہے کہ عوامی انقلاب کا طوفان تھمے گا نہیں اور شام بھی اس سے آگ سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ اگر وہاں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آتی ہے تو یقینی طور پر مغرب عوامی شورش کی حمایت پر مجبور ہو گا اور اس کی کوشش ہو گی کہ موجودہ نظام کو ختم کر کے کسی نئے چہرہ کو لے آئے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کا بھی تحفظ کرے اور اسلام کو بھی دبانے اور کچلنے کا ہنر جانتا ہو۔ دراصل دیکھا جائے تو یہ بھی ایک المیہ ہے اور کڑوی حقیقت کہ عالم عرب خصوصاً اور مسلم دنیا عموماً اب تک جرنیلوں، سول آمروں اور بادشاہوں کی دنیا رہی ہے۔ اس دنیا میں گزشتہ پچاس سال سے ہر چیز ’’کنٹرولڈ‘‘ چلی آ رہی ہے۔ ان ملکوں میں انتخابات کنٹرولڈ ہوتے ہیں۔ ان کے نتائج کنٹرولڈ ہوتے ہیں، حکومتیں کنٹرولڈ ہیں، سیاسی جماعتیں کنٹرولڈ ہوتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کنٹرولڈ ہوتے ہیں ، عدالتیں کنٹرولڈ ہوتی ہیں اور یہاں تک کہ احتجاج اور بغاوتیں بھی کنٹرولڈ ہوتی ہیں۔ اس بار ایسا نہیں ہو گا کہ اس میں کافی شبہ کیا جا سکتا ہے۔

وہائٹ ہاؤس پر قابض صہیونی لابی

$
0
0

امریکی وہائٹ ہاؤس میں ہر شخص اسرائیلی لابی کی جیبوں
میں ہے اور اسے بھر پور مالی امداد ملتی  ہے

ہیلن تھامس

سید لیاقت حسین
کہا جاتا ہے کہ عمر رسیدہ لوگوں کی عقل چرخ ہو جاتی ہے یا وہ سٹھیا جاتے ہیں وغیرہ لیکن میرے خیال سے 90 سال کی ہو جانے پر بھی معروف امریکی صحافی ہیلن تھامس اپنے مکمل ہوش و حواس میں ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں وہ اپنے خیالات کے لئے عیسائیوں اور بالخصوص مغربی میڈیا میں ایک متنازع شخصیت بن گئی ہیں بلکہ ان کے خلاف ایسی نفرت پھیلا دی گئی ہے کہ وہ یہودی نواز امریکیوں اور یورپ کے عیسائیوں کے عتاب کا نشانہ بن گئیں۔
دنیا بھر کی صیہونی طاقتیں اس وقت چراغ پا ہو گئیں جب ہیلین نے امریکہ کے پلے بوائے میگزین سے تازہ ترین انٹرویو میں یہ کہا کہ امریکی وہائٹ ہاؤس اور کانگریس مکمل طور سے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔
ہیلن جو کہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے تک وہائٹ ہاؤس سے منسلک تھیں اور 10 امریکی صدر کا دور دیکھ چکی ہیں اور وہاں صفحہ اول کی نشست پر مستقل بیٹھا کرتی تھیں۔ گزشتہ سال وہ اپنے ایک بیان کے بعد وہاں سے ہٹا دی گئی تھیں۔ ان کا اس وقت کا بیان اسرائیل اور فلسطین کے تعلق سے تھا۔ گذشتہ چند سالوں سے ان کے اسرائیل اور یہودیوں سے متعق متنازع بیانات پر یہودی نواز امریکی ذرائع ابلاغ میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں، وہائٹ ہاؤس اور امریکہ کے دیگر بہت سے حساس اداروں کے بارے میں ان کا کہنا ہے ککہ یہ سب مکمل طور پر یہودیوں کے قبضے میں ہیں اور ان کا ہر شخص اسرائیلی لابی کی جیبوں میں ہے۔
ہیلن نے تفصیل میں جانتے ہوئے کہا کہ یہودی اپنی طاقت کا بے جا استعمال کر رہے ہیں اور وہ اپنا قبضہ ہر سمت میں پھیلائے ہوئے ہیں۔ وہاٹ ہاؤس پر قبضہ، کانگریس پر قبضہ۔۔۔ ہر شخص اسرائیلی لابی کی جیبوں میں ہے اور اسے بھرپور مالی امداد ملتی ہے جن میں سے امداد دینے والیے ہالی وڈ کے بڑے بڑے اداکار بھی ہیں۔ یہی حال معیشت کے بازاروں کا ہے اس طریقے سے مکمل قبضہ یہودیوں کا ہے۔
ہلین نے کہا کہ امریکہ میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہے، یہودی کارفرمائیاں کھلے عام جاری ہیں۔ ہیرسٹ کارپن نے انہیں سال گزشتہ جون میں صرف اس بات پر اپنی کمپنی سے نکال دیا تھا کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سرزمین فلسطین سے یہودیوں کو نکال پھینک دیا جانا چاہیے اور یہ کہ انہیں پولینڈ، جرمنی اور امریکہ میں اپنے گھروں کو واپس بھیج دیا جانا چاہیے۔ حالیہ انٹرویو میں بھی ہیلن نے اپنے پچھلے سال کے بیانات پر کوئی افسوس کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ اپنے یقین کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں کو رہنے کا حق بے شک ہے مگر صرف وہاں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے جز بز ہو کر کہاکہ مجھے یہ سب کیوں نہیں کہنا چاہیے؟ میں جانتی ہوں کہ میں کیا کر رہی ہوں میں جو کہہ رہی ہوں، بہت سوچ سمجھ کر کہہ رہی ہوں میں ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہوں جہاں سے کوئی واپسی نہیں ہے جہاں ہر کوئی بیزار ہو جاتا ہے۔
ہلین نے بہرحال یہ ضرور کہا کہ وہ یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں وہ دل والے لوگ ہیں مگر صرف دوسروں کے لئے ، عربوں کے لیے نہیں۔ میں ان کے خلاف نہیں ہوں، میں صہیونیوں کے خلاف ہوں۔ یہودیوں کے اپنے مکان واپسی کے حوالے سے انہوں نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ ان کو اپنی جائے پیدائش میں اس لیے رہنا چاہیے کہ اب جنگ عظیم دوئم کے بعد ان کا کہیں بھی استحصال نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ہو رہا ہوتا تو دنیا اس سے ناواقف نہیں رہتی۔
یہودیوں کے دباؤ میں آ کر اب یکے بعد دیگرے بہت سے اداروں نے ہیلن سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کر دی ہے، اسرائیل سے متعلق بیانات پرایک ایجنسی نائن سپیکرز نے بھی ہیلین کو برطرف کر دیا ہے۔ نائن ک صدر ڈائن نائن نے بہرحال ہیلن کی تعریف کی لیکن ساتھ میں یہ کہا کہ ان کی ایجنسی ہیلن کو بے دخل کر دے گی، کیونکہ ہم ان کے بیانات کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو انہوں نے مشرقی وسطی کے سلسلے میں دئیے اور نائن سپیکرز اب ان کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکی ایڈمنسٹریشن اور بالخصوص حالیہ اور سابق صدارتی عملہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے ہیلن کی دل کھول کر مذمت کر ڈالی۔ ان میں سے کئی ایک نے یہ تک کہہ ڈالا کہ وہ تمام ادارے میں جس سے ہیلن وابستہ ہیں وہ انہیں فوری برطرف کر دیں۔
ہیلن جنہوں نے اپنا صحافتی کیرئیر 1943 ء میں شروع کیا تھا، مشرقی وسطی کے سلسلے میں ہمیشہ سے ہی دبنگ رہی ہیں۔ وہ چونکہ لبنان نژاد ہیں، اس لئے عربوں اور بالخصوص فلسطینوں کے لیے ان کے دل میں ایک نر مگوشتہ ہے۔ اپنے اس طویل صحافتی سفر میں وہ زیادہ تر فلسطینیوں کے کاز کو ہی لے کر آگے رہی ہیں۔ وہ وائٹ ہاؤس پریس کورگی ڈین کہلاتی رہی ہیں تو ان کو اتنی عزت سے نواز بھی جاتا رہا ہے اور گزشتہ سال اگست میں امریکی صدر براک اوباما نے ان کے 90 ویں یوم پیدائش پرنیوز روم میں بہ نفس نفیس آ کر ذاتی طور سے مبارکباد بھی دی تھی اور تحفوں سے بھی نوازا تھا۔ وائٹ ہاؤس نیوز روم میں یہ ان کا خصوصی دورہ تھا جو انہوں نے صرف ہیلن کو نوازنے کے لیے کیا تھا۔ ہلین امریکی نیشنل پریس کلب کی پہلی خاتون افسر تھیں وہ وائٹ ہاؤس کارسپانڈنٹ ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر تھیں اور انہوں نے 10 امریکی صدر کی پریس کانفرنسیں کور کی ہیں۔
یہودیوں کے سلسلے میں ہیلن نے پچھلے ماہ یعنی فروری میں سی این این کو ایک انٹرویو میں پھر کہ جنگ عظیم کے بعد اب یہودیوں کو یورپ چھوڑنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب ان کا استحصال کہیں نہیں ہو رہا ہے بلکہ الٹا یہ ہو رہا ہے کہ وہ دوسروں کی زمین پر قبضہ جما رہے ہیں۔
سی این این کے انٹرویو میں ہیلن نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہودی پولینڈ اور جرمنی واپس چلے جائیں تو مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ روس بھی واپس چلے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیلن نے سی این این کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہر شخص نے میریے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ انہوں نے خاص طور سے سابق صدر جارج بش کے پریس سکیرٹری اور وائٹ ہاؤس کے سابق ترجمان ایری فلیشر کا نام لیا جنہوں نے ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے میڈیا کے ذریعے پیش کیا۔
وائٹ ہاؤس اور دوسرے اداروں سے متلعق ہیلن نے کہا کہ انہوں نے باقاعدہ اسرائیل کے حق میں بولنے والے تعینات کر رکھے ہیں وہاں آپ اپنا منہ نہیں کھول سکتے۔ اگر آپ نے ایک لفظ بھی اسرائیل کے خلاف کہا تو آپ حدود سے باہر کر دئیے جائیں گے۔
پلے بوائے میگزین کے کنٹری بیوٹر ڈیوی ہوچمین سے تازہ ترین انٹرویو کے دوران اسرائیلی کے خلاف فلسطینیوں کی جنگ کے متعلق سوال پر ہیلن نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی تشدد کو نہیں سراہا ہے لیکن پھر کون فلسطینیوں کی سرزمین کے لئے لڑے گا۔ کوئی بھی امریکی کیا کرے گا اگر کوئی ان کی زمین پر قبضہ کر لے تو؟ فلسطینیوں کا تشدد تو ان کو اپنی تھوڑی سی بچی زمین کے تحفظ کے لیے ہے اور فلسطینی خود کش حملے فطرتاً اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے ہیں۔ اسرائیلیوں نے تو ان کی تین پشتوں کو نکال باہر کیا ہوا ہے ان میں سے ان گنت تو مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ڈیوڈ کیمرون نے مسئلہ کشمیر حل کرانے سے انکار کیوں کیا؟

$
0
0

برطانوی وزیراعظم کیمرون تاریخ میں عالمی لیڈر کے طور پراپنا نام زندہ رکھنا چاہتے ہیں توانہیں مسئلہ کشمیر کی دورۂ بھارت کے موقع پر بات کرنی چاہیے


ڈاکٹر سمیرا درانی
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بالا آکراس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ مسئلہ کشمیر برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے تاہم حیرت کی بات اور افسوس کا مقام ہے کہ دوسرے ہی سانس میں اعتراف حقیقت کے باوجود ڈیوڈ کیمرون نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ اصولاً جب ڈیوں کیمر ون نے مسئلہ کشمیر برطانیہ کا پید کردہ ہونے کا اعتراف کیا تھا توان کا فرض یہی تھا کہ برطانیہ اپنی معاشی مفادات سے ہٹ کر اپنے ہی پیدا کردہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عملاً تاریخی کردار ادا کرتا لیکن کیمرون نے ایسا نہیں کیا ۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈں کیمرون اگر تاریخ میں ایک عالمی لیڈر کے طور پر اپنا نام زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مسئلہ کشمیر کی دورۂ بھارت کے موقع پر نہ صرف بات کرنی چاہیے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کروانا چاہیے۔ تصواب رائے کے ذریعے جس کا وعدہ خودبھا رت کے وزیراعظم نہرو نے کیا تھا۔
اکتوبر 1947ء کو بھگوڑے کشمیری راجہ کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچانے کی کارروائی سے بھی گھٹنے پہلے ہی بھارتی فوج انڈین ایئربیسز سے روانہ کی جا چکی تھی اور 27 اکتوبر کی صبح 9 بجے بھارتی فوجی دستے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتر رہے تھے۔ ساتھ ہی کشمیر کو بھارت سے ملانے والی واحد سڑک سے سول اور ملٹری ٹرانسپورٹ کے ذریعے دوسری افواج کو فوری طور پر پہنچنے کا حکم دیا گیا۔ یہ وہی سڑک ہے جو ریڈ کلف نے غالباً اکثریتی مسلم علاقہ کو گورداسپور کو بھارت کے حوالے کرکے اسے مہیا کی۔ بیٹن نے مہاراجہ کو الحاق کی منظوری کا جو مراسلہ 27 اکتوبر کو بھیجا تھا اس میں یہ تجویز تھا کہ اس پالیسی کے مطابق کہ جہاں کہیں الحاق کا سوال متنازعہ ہو، الحاق کا مسئلہ ریاست کے عوام ہی کی مرضی کے مطابق طے ہو ،میری حکومت کی یہ خواہش ہے کہ کشمیر میں جونہی ا من بحال ہو جائیں اور ان کی سرزمین حملہ آوروں سے خالی ہو جائے تو پھر ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی مرضی سے طے کیا جائے گا۔ مہاتما گاندھی نے 29 اکتوبر کو اپنی براتھنا والی تقریر میں کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب مہاراجہ نے اپنی مصیبت سے گھبرا کر انڈین یونین سے الحاق کی درخواست کی تو گورنر جنرل اس تجویز کو ردنہیں ہی کر سکتے تھے چنانچہ کشمیر میں اس سمجھوتے کی بنائی ہوئی فوجی بھیجی گئیں کہ یہ الحاق کشمیر ایک غیرجانبدارانہ استصواب رائے کے ساتھ مشروط ہے۔
30 اکتوبرکو وزیراعظم بھارت پنڈت نہرو نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو یک تار میں کہا کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات اور ان کی رائے کے مطابق ہوگا۔ ہماری یہ یقین دہانی کہ جونہی امن قائم ہوگا ہم اپنی فوجیں کشمیر سے ہٹا لیں گے صرف آپ کی حکومت سے ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام اور پوری دنیا سے کیا ہوا ہمارا عہد ہے۔ حکومت پاکستان نے اس الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ یہ اقدام فریب اور تشدد پر مبنی ہے۔ کشمیر کے الحا ق کے مطابق لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی اس الحاق کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ الحاق دھوکہ ہے کیوں کہ اسے حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے گئے جن کا مقصد الحاق کے ڈھونگ کا جواز پیدا کرنا تھا۔
کشمیری آزادی کی قیمت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ادا کر رہے ہیں۔ کشمیر میں بدترین شکست بھارتی فوج کا مقدر اور آزادی کشمیریوں کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ مشرقی تیمور کی آزادی کے لیے الگ معیار اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانے حل طلب مسئلہ کشمیر کے لیے دوسرا معیار امریکہ یورپ اور اقوام متحدہ کے بدترین تعصب اور دوہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عالمی برادری اور دنیا کی بااثر طاقتیں کشمیریوں کو مسلمان ہونے کی سزا دے رہی ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے ہا ہا کار مچانے والے کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر برلب کشائی کیوں نہیں کرتے۔ جب کوئی کشمیر ی اپنی دفاع میں پتھر اٹھاتا ہے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ بھارت کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کرتا جبکہ امریکی اور یورپی میڈیا بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارتی فوج نے اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق تحریک آزادی کشمیر جاری رکھے ہوئے نہتے کشمیریوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کے ایجنڈے کے تحت قتل عام کی مہم شروع کر دی رکھی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ کو چاہیے کہ کشمیریوں کے بچاؤ کے لیے اپنی انسانی ذمہ داریاں نبھائے۔ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں؟ سچ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ میں منظور کردہ قراردادوں کے مطابق استصوراب رائے کا حق دیا جائے۔

ایرانی پارلیمان اوراحمدی نژاد میں اختلافات کی خلیج مزید گہری

$
0
0
ایران کے وزیرخارجہ کے خلاف پارلیمان میں مواخذے کی تحریک پر بحث شروع ہوگئی ہے اورارکان نے وزارت کھیل کے سربراہ کے عہدے کی بھی توثیق نہیں کی جس کے بعد قدامت پسندوں کی بالادستی والی پارلیمان اور صدرمحمود احمدی نڑاد کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔
ایرانی وزیرخارجہ علی اکبر صالحی کا مواخذہ صدر کے ایک چیف آف اسٹاف کو اپنا معاون وزیرخارجہ مقرر کرنے پر کیا جارہا ہے۔ایرانی پارلیمان کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق علی اکبر صالحی کے خلاف مواخذے کی تحریک پر تینتیس ارکان پارلیمان نے دستخط کیے ہیں اور منگل کے روز اسے ایک رکن پارلیمان نے اجلاس کے دوران پڑھ کر سنایا۔
ارکان پارلیمان نے اپنی تحریک میں کہا ہے کہ ’’’ایسے شخص کے تقرر سے قومی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔اس شخص کو گرفتار کیا جانے والا ہے اور عدلیہ اس کے خلاف مالی اور غیر مالی کیسز کے بارے میں تفتیش کررہی ہے۔‘‘
دوسری جانب علی اکبر صالحی نے اپنے نائب وزیرخارجہ محمد شریف ملک زادے کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے۔ انھیں چار روز قبل وزارت خارجہ میں انتظامی امور کا نائب وزیر مقرر کیا گیا تھا۔ایرانی میڈیا نے بعض ارکان پارلیمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس استعفے کے بعد مواخذے کی تحریک ختم کی جاسکتی ہے۔تاہم پارلیمان کے اسپیکر علی لاری جانی کا کہنا ہے کہ ابھی مواخذے کی تحریک پر کارروائی نہیں روکی گئی ہے۔اب یہ ارکان پارلیمان پر منحصر ہے کہ وہ باضابطہ طور پر اپنی درخواست کو واپس لے لیں۔
واضح رہے کہ شریف ملک زادے ایران کی خارجہ امور کی کونسل میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔اس کو ایرانی صدر کے چیف آف اسٹاف اسفندیار رحیم مشاعی چلا رہے تھے۔مشاعی پر قدامت پسندوں کا الزام ہے کہ وہ اسلامی حکومت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔وہ متعدد مرتبہ انھیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
ایرانی پارلیمان نے حال ہی میں قائم کی گئی وزارت کھیل کے صدرنڑاد کی جانب سے نامزد کردہ سربراہ حامد سجادی کے عہدے کی توثیق بھی نہیں کی۔آج پارلیمان کے اجلاس میں دوسوسینتالیس ارکان حاضر تھے اوران میں سے صرف ستاسی نے ان کے نام کی منظوری دی اور باقی نے ان کی مخالفت کی۔
ایرانی پارلیمان نے کچھ عرصہ قبل ملک میں کھیلوں کے امور کی نگرانی کے لیے وزارت کھیل کے قیام کی منظوری دی تھی۔اس وقت فزیکل ایجوکیشن کا ادارہ کھیلوں سے متعلق سرگرمیوں کی نگرانی کا ذمے دار ہے اور یہ براہ راست ایرانی صدر کو جوابدہ ہے۔

بین الااقوامی سیاست کے لفنگے

$
0
0

امریکہ کے سابق صدر جان ایف کینڈی، بل کلنٹن، فرانس کے صدر نکولس سرکوزی ،اٹلی کے وزیراعظم سلویوبرلسکونی اور اسرائیل کے سابق صدر موشے کاتسونے سیکس اسکینڈل میں عزت گنوائی ،وقار گنوایا اور خود کو سیاسی لفنگا ثابت کیا

 

انٹرنیشنل ڈیسک 

وہ سیاست کے گھاگ کھلاڑی تھے ‘سیاسی چالوں کے ماہر تھے ‘سیاست کے کیڑے تھے ۔سیاسی گر کے بادشاہ تھے ۔اقتدار کے مالک تھے ‘اختیارات سے مالا مال تھے ۔عوام کے دلارے ،کوئی قوم کی امید ،تو کوئی ملک کی ،مگر جب دنیا نے ان کی شخصیت کے تاریک پہلوکو روشن کیا تو ہر کوئی بے ساختہ کہہ پڑا کہ
ارے یہ تو بدمعاشا ش ہیں
یہ تو عیاش ہیں
یہ تو بدکردار ہیں
یہ تو بدذات ہیں
جی ہاں ! ہم بات کر رہے ہیں سیاست کے Bad Boys(بیڈبوائز) کی جن کے دماغ میں سیاست ہے ۔مگر دل میں سیکس کا جوار بھاٹا کروٹیں بدل رہا ہے ۔سیاست کے عروج پر گئے، شہرت کی بلندیوں کو چھوا،عزت کے دعویدار رہے مگر جب سیکس کے چکنے فرش پر پھسلے تو ایسے گرے کہ بدنامی ،ذلت اور رسوائی کی گہرائیوں میں تلاش بھی ممکن نہیں رہی ۔وہ گمنامی کے غار میں گر گئے ،پیشانی پر داغ لگا گیا ۔ان کی سیاسی وسماجی کامیابیوں پر پانی پھر گیا ۔دنیا بھر میں تھو تھو ہوئی اور جس شخصیت کو تا ریخ میں سیاسی کارناموں ،سفارتی بلندیوں اور حکمرانی کے فن کے لیے یاد کیا جاتا چاہئے تھا ۔اب سیکس اسکینڈل کے ساتھ تاریخ میں چمک رہا ہے ۔ایسی شخصیات کی فہرست میں اب انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ(آئی ایم ایف) کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اسٹراوس جان بھی شال ہو گئے ہیں جن کے سیکس اسکینڈل نے دنیا میں ہلچل پیداکر دی ہے،تو فرانس میں کہرام مچا دیاہے ۔کیونکہ اسٹراوس جان فرانس کے سابق وزیر اقتصادیات ہیں اور اگلے صدارتی چناؤ میں ان کو طاقتوار امیدوار مانا جارہا تھا ۔مگراب سیکس اسکینڈل نے ان پر داغ لگا دیا ہے ۔بس ان کے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ سیکس اسکینڈل کرنے والے وہ کوئی واحد(فرانسیسی ) نہیں ہیں ۔فرانس کی سرزمین اس معاملے میں بہت زرخیز ثابت ہوئی ہے ۔دنیا نے سیاستدانوں کے سیکس اسکینڈلوں کی تاریخ کو صحتمند پایاہے ۔امریکا کے سابق صدر جان ایف کینڈی ہوں یا بل کلنٹن، فرانس کے صدر نکولس سرکوزی ہوں یا اٹلی کے وزیراعظم سلویوبرلسکونی یا اسرائیل کے سابق صدر موشے کاتسو ،سب نے سیکس اسکینڈل میں عزت گنوائی ،وقار گنوایا اور خود کو سیاسی لفنگا ثابت کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر کا میڈیا القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی عیاشیوں کی تشہیر میں مصروف ہے ۔اسامہ کے خلاف اس طرح پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ گویا اسامہ نے زندگی میں عیاشی کے سوا کچھ اور کیا ہی نہیں جبکہ دنیا اس کو چٹخارے لے کر دیکھ بھی رہی ہے ۔لیکن جب بات کینیڈی کی رنگین زندگی کی ہو یا بل کلنٹن کی عیاشی کی تو دنیا کو کوئی دلچسپی نظر نہیں آئی ہے ۔ا ب آئی ایم ایف کا چیف اپنی ملازمہ کی عصمت دری کے الزام میں جیل گیا تو چند دنوں کے بعد معاملہ دفن ہوتا نظر آرہا ہے ۔حالانکہ اسٹراوس کان کے بارے میں کہا جارا ہے کہ وہ پرانا عیاش ہے اور اس کی فطرت سے واقف اس کے ہم خیال وہم مزاج فرانسیسی صدر سرکوزی نے آئی ایم ایف کی کمان سنبھالنے کے بعد یہ مشورہ دیا تھ اکہ وہ لڑکیوں کا شوق ذرا دھیان سے کریں ۔2007ء میں جب اسٹراوس کان نے پیرس سے واشنگٹن کا رخ کیا تھا تو سرکوزی نے ایک اچھے دوست کا کردار نبھاتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی حرکتوں پر قابو پائیں ورنہ مستقبل میں مشلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔اب جبکہ نیویارک پولس نے اسٹراوس کان کو گرفتار کیا تو سرکوزی نے خبر سننے کے بعد اپنے مشیر سے کہا کہ ’’میں نے اس کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا تھا ‘‘۔62سالہ اسٹراوس کان کے سیکس اسکینڈل نے ایک بار پھر دنیا میں سیاستدانوں کی عیاشی کی کہانیوں کو زندہ کر دیا ہے۔
قصے کینیڈی کی عیاشی کے :
امریکا کے صدر معاشقے کے معاملے میں شاید دنیا میں سب سے آگے ہیں ۔جان ایف کینیڈی بھی ایک رنگین مزاج صدر ثابت ہوئے تھے ۔مگر ان کے کارنامے موت کے بعد ہی دنیا کے سامنے آئے ۔کینیڈی کے قتل کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ بھولے بھالے چہرے والا شخص زندگی بھر اپنی شریک حیات کو دھوکہ دیتا رہا تھا ۔ہلیز اسٹار کے ساتھ سب سے بڑا معاشقہ چلا۔اس کے ساتھ پینٹر میری پن شاٹ ،مافیا کی اہلیہ جوری کیمپیل اور مشہور اداکارہ میرلن ایکسنر کے ساتھ کینیڈی وائٹ ہاؤس کے اندر اور باہر عیاشی کرتے رہے تھے۔دراصل امریکا میں یہ لطیفہ بن گیاتھا کہ اگر آپ وائٹ ہاؤس کے دعویدار ہیں تو آپ کی سب سے بڑی اہلیت ’’ناجائز تعلقات‘‘ کی مانی جائے گی ۔کینیڈی کے معاشقے کی داستان جب دنیا کے سامنے آئی تو ان کے قتل پر ماتم کرنے والے دنگ رہ گئے تھے کیونکہ ان میں 19سالہ دوشیزہ بھی شامل تھی ۔کینیڈی کے قتل کے بعد ان کے معاشقوں کی داستان شیطان کی آنت ثابت ہوئی اور ان کی موت پر آنسو بہانے والی بیوہ بھی حیران رہ گئی ۔آج امریکی تاریخ میں کینیڈی سب سے رنگین طبیعت صدر کی حیثیت سے یا د کئے جاتے ہیں۔
کلنٹن کا دل :
بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کے سیکس اسکنینڈل نے دنیا کو ایک تماشہ دکھایا تھا ،جب دنیا کا سب سے بڑاطاقتوار شخص سرجھکائے کھڑا تھا ۔قوم سے اپنی عیاشی کی معافی مانگ رہا تھا۔کلنٹن، لیونسکی معاشقہ دراصل ایک سیاسی سیکس اسکینڈل بن گیا تھا جس نے وائٹ ہاؤس کے اندر کے سچ کو دنیا کے سامنے لادیا تھا۔دراصل 22سالہ مونیکا لیونسکی کو وائٹ ہاؤس میں ایک عارضی ملازم کے طور پر رکھا گیا تھا ،جس نے لیوس اینڈ کلارک کالج سے گریجویشن کیا تھا ۔کچھ ہی دنوں میں مونیکا لیونسکی کو یہ محسوس ہو اکہ کلنٹن کا جھکاؤ ان کی جانب ہے اور مونیکا لیونسکی بھی بل کے دل کو پڑھنے لگی ۔دنیا کا سب سے طاقتور انسان بہت جلد مونیکا لیونسکی کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر چکا تھا۔جس کی خبر مونیکا لیونسکی نے اپنی دوست لنڈا ٹرپ کو دی ،جس نے مونیکا لیونسکی کی بات چیت کو ریکارڈ کر لیا تھا ۔جب کلنٹن نے لیونسکی معاشقہ سرخیوں میں آیا تو مونیکا لیونسکی نے کلنٹن کے ساتھ ناجائز تعلقات ہونے سے انکار کے لیے ایک حلف نامہ داخل کیا تھا ،جب لنڈا ٹرپ کو اس کی خبر ملی تو اس نے مونیکا لیونسکی کی ریکارڈ شدہ بات چیت کو میڈیا کے حوالے کر دیا تھا ۔کلنٹن ،لیونسکی معاشقہ کی انکوائریکرنے والے آزاد جج کینتھ اسٹار کو ٹیپ دیا گیا ۔اس معاملے پر طویل عدالتی کارروائی کے بعد آخر کار بل کلنٹن کو قوم سے معافی مانگنی پڑی تھی ۔دنیا بھر نے بل کلنٹن کو عرش سے فرش پر آتے ہوئے دیکھا ‘مگر اس ذ اتی بحران کے دوران بل کلنٹن کی اہلیہ ہلیری کلنٹن نے ان کا ساتھ دیا ۔جو اب امریکہ کی وزیر خارجہ ہیں ۔7جنوری 1999ء سے بل کلنٹن کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی جو21دنوں تک چلی تھی ۔یہی نہیں اس کے بعد پاؤلا جونز نامی خاتون نے کلنٹن پر جنسی استحصال کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کا کہنا تھا کہ بل کلنٹن نے گورنر کی حیثیت سے ہوٹل کے کمرے میں اس کے ساتھ جنسی استحصال کیا تھا ‘مگر بل کلنٹن نے کبھی اس کو تسلیم نہیں کیا۔دراصل مونیکا لیونسکی کا معاملہ اس قدر گرم تھا کہ کوئی دوسرا نام سرخیوں پر قابض نہ ہو سکا۔
سرکوزی ایک رنگین مزاج صدر:
موجودہ دور میں سب سے رنگین مزاج صدر فرانس کے نکولس سرکوزی ہیں ۔بد دماغ‘بدمزاج ،مگر جب بات عشق کی ہو تو سرکوزی کی شخصیت ہی بدل جاتی ہے ۔فرانس کا صدر بننے کے بعد سرکوزی ٹاپ ماڈل کارلابرونی کے ساتھ مصر کے دورے پر گئے تھے۔دنیا کی تاریخ میں شاید پہلا موقع تھا جب کوئی صدر اپنی معشوقہ کے ساتھ سرکاری دورہ کر رہا تھا ۔فرانس بھی شرمندہ ہوا اور سرکوزی پر بھی تھوتھوہوئی ۔پھر سرکوزی پر دباؤ نے کام کیا اور انہوں نے کار لابرانی سے شادی رچالی ۔دراصل اپنی بیوی سیسلا سے طلاق کے ایک ماہ بعد ہی سرکوزی کی ملاقات ایک ڈنر پر کارلابرونی سے ہوئی تھی ۔پہلی نظر میں پیار ہوا۔ملاقاتیں ہوتی رہیں اور پھر یہ عشق بھی میڈیا کی نظر میں آیا تو سرخی بن گیا ۔2فروری 2008 کو سرکوزی نے کارلا سے شادی کرلی ۔2010 میں ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ سرکوزی اور کارلا کے درمیان تناؤ ہو گیا ہے اور دونوں الگ الگ ہیں ۔محبت کا آخری صفحہ تیار ہے مگر پھر ایسا کچھ نہیں ہوا۔سرکوزی کی محبت اب تک سلامت ہے۔سرکوزی جب ہندوستان کے دورے پر آئے ،تو کارلا برونی کے ساتھ آگرہ گئے ۔تاج محل کے دیددار کئے اور فتح پور سیکری میں سلیم چشتی کے مزار پر حاضری دی ۔جہاں کار لا نے ایک بیٹے کی ماں بننے کی دعا کی تھی ۔17مئی 2011 کو خبر آئی کہ کارلا حاملہ ہیں ۔بہر حال سرکوزی کی یہ محبت اب اولاد کی نشادی دے گی ،مگراس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ سرکوزی کی زندگی میں کوئی اور کارلانہ ہو۔دنیا میں جو بڑے سیاستدان عیاشی کلب کے رکن ہیں اس میں سرکوزی بھی شامل ہیں ۔فرانس میں برقع پر پابندی عائد کرانے کے ساتھ برقع کو عورت کے چلتا پھرتا جیل کہنے والے سرکوزی اس وقت کارلا کے ساتھ مست ہیں ۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
اگر ہم سیاستدانوں کی رنگ رلیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر دور میں کینیڈی ملیں گے اور ہر دور میں بل کلنٹن نظر آئیں گے ۔بات صرف اسکینڈل پر ختم نہیں ہوتی ۔بلکہ کئی سیاستدانوں نے جیل کی ہوا بھی کھائی ہے ۔22 مارچ2011 کو اسرائیلی عدالت نے سابق صدر موشے کاتسو کو عصمت دری کے الزام میں سات سال کی سزا سنائی تھی ،جن کے خلاف دسمبر2010 میں عصمت دری کا معاملہ درج ہوا تھا ۔اس اسکینڈل نے سیاست میں بھونچال پید اکر دیا تھا ۔اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی بھی سرخیوں میں چھائے رہے تھے ،جب 2008 میں ان کے سیکس اسکینڈل نے اٹلی کو شرمسار کیا ،مگران پر کوئی اثر نہیں پڑا۔2009 میں سیکس اسکینڈل کے سبب ان کی طلاق ہوئی تھی ۔برلسکونی پر ایک کال گرل نویمی لیزیا کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنے کا الزام عائد ہو اتھا ۔اٹلی کے اخبارات نے صدر کی عیاشیوں کی داستانوں سے صفحات سیاہ کر دئیے تھے۔اس کے بعد ایک جسم فروش اور بپلے ڈانسر رونی نے برلسکونی پر برہنہ پارٹی کا اہتمام کرنے کا الزام عائد کیا تھا،جس میں برلسکونی کے خاص دوست شرکت کرتے تھے ۔ایسے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ سیاستدانوں میں اقتدار اور دولت کا نشہ کس طرح چڑھا ہے۔1998میں نکارگوا کے صدر ڈانیل اور ٹیکا نے ملک کی عدالت میں اپیل دائر کی تھی کہ انہیں پارلیمانی معافی دی جائے ۔ان پر سوتیلی بیٹی کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنے کا الزام تھا ۔مگر اورٹیگا کا کہنا تھا کہ ’’ یہ ایک سازش ہے ‘اس کا مقصد میرا سیاسی خاتمہ ہے۔ ‘‘ان کی 30سالہ بیٹی نارویز نے کہا تھا کہ 11سال کی عمر سے اورٹیگا اس کے ساتھ جنسی بدسلوکی کر رہے ہیں ۔اب امریکا میں ہالی ووڈ ڈایکٹر سے کیلیفورینا کے گورنر بننے آرنالڈ کے ناجائز تعلقات نے ان کے گھر کو اجاڑ دیا ‘کیونکہ ان کے ناجائز بچے کے سامنے آنے کے بعد طلاق ہوگئی ہے اور اب وہ ذلت کا جام پی رہے ہیں۔

افغانستان سے انخلاء پاکستان پر حملے کی تیاری تو نہیں؟

$
0
0
امریکی صدر باراک اوبامہ کا افغانستان سے ایک لاکھ امریکی فوجیوں میں سے آئندہ۱۸ مہینوں کے دوران ایک تہائی فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ حیرت انگیز ہے ۔ اپنے حتمی فیصلے کا اعلان کرتے وقت اوبامہ کو ان تمام لوگوں کے سوالوں کے جوابات دینے ہوں گے جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان سے اپنی فوجی کے انخلاء کا فیصلہ صادر کر کے کہیں بارک اوبانہ نومبر ۲۰۱۲ کے صدارتی الیکشن کیلئے عوام الناس کے درمیان جگہ تو نہیں بنانا چاہتے۔ یعنی مختصر سے وقفے کیلئے جنگ بندی کی جائے اور بعد میں یہی سلسلہ جاری رکھا جائے۔ اپنے اقتدار کے پہلے دور کے خاتمے سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں فوج کو واپس بلانا او روضاحت یہ پیش کرنا کہ ان کا سارا دھیان ملک کی ترقی کی طرف ہے اوبانہ کیلئے کامیابی کی راہیں تنگ کرتا ہے، امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج چاہے جو بھی ہوں ، اوبامہ صدر بنیں یا رپبلکن پارٹی کا کوئی ممبر کسی کے بھی لیے اس واقعہ کو دہرانا ممکن ہے۔ افغانستان کی جنگ اب ملٹری کا جھگڑبن کر رہی گئی ہے۔ واشنگٹن ، ڈی سی میں سیاسی اور مالیاتی جماعتیں اوبامہ کے اس فیصلے کے حق میں ہیں۔ یعنی اگر افغانستان میں امریکی فوج رہتی ہے تو اسے مدد فراہم کی جاتی اور طالبان کے خلاف عالمگیر جنگ کا اعلان کیا جاتاہے تو اس کے خلاف مظاہرے کیے جاتے ہیں ۔ یہ سب کون کررہا ہے ؟ یورپی لوگوں کو ان تمام چیزوں میں دلچسپی نہیں ہے ۔ روس دوبارہ افغانستان کا رخ نہیں کرے گا۔ سوپرپاور امریکہ کی مزاحمت کرتے ہوے دیگر طاقتیں جن کے پاس بڑی افواج بھی ہیں جسے چین، ہندوستان ، ترکی اب ہوشیار ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی میں ہندوستان کے سیاسی اور سماجی پروگراموں کو سایہ فراہم کرتی ہے ۔ چین کا مسئلہ ذرا مختلف ہے کیونکہ وہ اکیلا افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے اور اس کی نظریں افغانستان کے وسائل پر جمی ہوئیں ہیں۔ فوجیوں کے اس انخلاء سے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بڑی سہولتیں جیسے اینک تانبے کی کان جسیے چین کی انڈسٹری کے ذریعے شدید نقصان پہنچا تھا۔ نیٹو نے اس کی حفاظت کی۔ اوبامہ کے اس ممکنہ فیصلے کے تین مقاصد ہوسکتے ہیں جس میں تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ پچھلے کئی دنوں میں صدر بارک اوبامہ کے بیان پر تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی فوج کا افغانستان میں ہونا ضروری ہے ساتھ ہی افغانستان پر چڑھائی کیلئے پاکستان کی بھی ضرورت ہے تاکہ امریکہ افغانستان میں چھپے اپنے دشمنوں سے مقابلہ کر سکے القاعدہ کے لیڈروں کا قتل کرسکے، طالبان سے مقابلہ کر سکے اور اپنے ملک (امریکہ ) کو محفوظ بنا سکے۔ اس طرح کے تصور سے اسلام آباد کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ امریکی سسٹم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس تصور کی حمایت کرتے ہیں۔۲۰۱۰ء کی شروعات میں لندن کانفرنس کے بعد جب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء پر بات کی گئی پاکستانی جنرلوں کو خوشی حاصل ہوئی۔ آج ہو خاموش ہیں ۔ تمام چیزیں اسی طرح چل رہی ہیں لیکن کب کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ سے ملے تمام سنگل کچھ گڈ مڈ نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ اپنی فوج کو افغانستان سے واپس بلا رہے ہیں اور دوسری افغانستان کے فضائیہ شعبہ میں کثیر سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ امریکی افواج ، افغانستان میں ا پنی موجودگی کو کم کرکے پاکستان پر اچانک حملہ کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے ا مریکہ کے نائب صدر جوبیڈن اس حکمت عملی کے بارے میں اپ نے ایک بیان میں اشارہ دے چکے ہیں۔ لیکن یہ دونوں امکان ہندوستان کو راس آتے ہیں۔ جبکہ تیسرا مکان کو لے کر ہندوستان اور واشنگٹن ے درمیان فاصلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ہندوستان ، افغانستان کا غیر سرکاری ڈیویژن بننا پسند کرے گا اور اپنے شمالی حصے کی سکیورٹی چاہے گا۔ دوسری طرف جنوبی افغانستان میں پشتو اور قبائلی سی آرمی مذہب سے جڑے اپنے نظریات میں مزید شدت پیدا کرسکتی ہے۔ امریکہ فوج کے انخلاء کے اعلان کے بعد ان کی غیر موجودگی میں پشتو قوم اپنے قدم بڑھانے میں مزید تیزی لائے گی اور ایک پشتو علاقے کی بھی بنیاد ڈالی سکتی ہے۔ حقیقتی تو یہ ہے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے پیچھے کسی سیاسی سازش کے چھپے ہونے کی بو آرہی ہے۔
اشوک ملک

امریکہ آئندہ جنگیں صرف ڈرون طیاروں کے بل پر لڑے گا

$
0
0

’’ قندھار کا بھیڑیا‘‘ نامی طیارے نے اسامہ کی ایبٹ آباد والی حویلی کی نشاندہی کی ، نئے طیاروں کی تیاری سے چھوٹے ممالک خوف سے دوچار

امریکی ملٹری ریسرچرز نے ایک نیا اور جسا مت میں بہت چھوٹا ڈرون  طیارہ تیار کرلیا ہے ۔ یہ ڈرون طیارہ ایسا ہے کہ وہ پاکستان پر میزائلز داغتے ہوئے افغانستان میں باغی جتھوں کی سرگرمیوں کی جاسوسی بھی کر لے گا اور با غی جتھوں کی تصویر میں لوگ کیڑوں اور پرندوں جیسے چھوٹے دکھائی دیں گے ۔
ڈرون طیاروں کی اڑان سے متعلق لیباریٹری کو ایک نہایت موزوں نام ’’ مائیکرو ایویاری ‘‘  دیا گیا ہے کیوں کہ ڈرون طیاروں کے میکانکی ارتقاء میں پروانوں ، پتنگوں ، عقابوں اور دیگر قدرتی مخلوقات نے نہایت اہم کردار ادا کیئے ہیں ۔ ایک ایرو اسپیس انجیئنر گریگ پار کر کا کہنا ہے کہ ’’ مستقبل میں یہی میکانیکی عقاب یا تو جاسوسی کیا کرے گا یا ہلا ک کیا کرے گا۔
کوئی نصف دنیا سے دور فاصلے پر افغانستان امریکی بحریہ کے فوجی جتھے اس عجوبے کو دیک دیکھ کر حیران ہونے لگے جو کہ ایک باریک سے تار کے سہارے افغانی صوبہ ہلمندی میں سجن  کیس مقام پر نہایت خونریز محاذ جنگ کی ایک چوکی پر کوئی پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر فضا میں ڈول رہا ہے۔ یہ غبارہ ایرو اسٹاٹ Aero stat سے موسم ہے اور یہ غبارہ مسلسل ویڈیو تصویر یں بھجوا رہا ہے ۔ کوئی 20 میل دورفاصلے کی تصویریں جہاں پر باغی جتھے گھروں میں تیار ر کھے گئے بمبوں کو نصب کر رہے ہیں ۔ محاذ جنگ پر متعین ایک امریکی فوجی کیپٹن تکولائی جانسن نے کہا کہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ ’’ پورے محاذ جنگ پر ایسے کئی غبارے نصب کردئیے جائیں ‘‘ ہو سکے تو اسی موسم بہار میں ۔
ڈرون طیاروں کی تیاری میں جو نیامیانکی ارتقاء ہوا ہے وہ امریکی فضائیہ کے ڈھانچوں کو اور فضائی جنگوں کی نوعیت کو ہی یکسر بدل ڈالے گا۔ نیا ڈرون طیارہ ایک چھوٹے سے  ہوائی جہاز کی جسامت کا ہوگا۔ لیکن یہ نہایت طاقتور طیارہ ہوگا۔ ڈرون طیاروں کی آزمائشی پروازیں گیارہ ستمبر 2001ء سے شروع ہوئیں اب ڈرون طیاروں کے حملوں نے دنیا بھر کو دہشت زدہ کر ڈالا ہے ۔ اب یہ خبر کہ نئے ڈرون طیاروں موجودہ ڈرون طیاروں کی جسامت سے مقابلے میں کمتر جسامت کے ہوں گے اور موجودہ ڈرون طیاروں کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور ہوں گے ۔ دنیا بھر کے ملکوں کو ایک ہولناک خوف سے دوچار کردیا ہے۔
امریکی محکمہ جنگ یعنی پینٹا گان کے پاس اب کوئی سات ہزار ڈرون طیارے ہیں ۔ ڈرون طیارے کسی پائلٹ کے بغیر ہی اڑان بھرتے ہیں اور طے شدہ نشانوں پر زد لگا کر ا پنے مقام کو واپس آجاتے ہیں ۔ ایک دہائی قبل پینٹا گان صرف پچاس ڈرون طیاروں کا حامل تھا۔ اب وہ کوئی سات ہزار ڈرون طیاروں کا حامل ہے۔ ڈرون طیارے دور اور نزدیک طے شدہ نشانوں پر بمباری یا میزائل اندازی بھی کریں گے ۔ ڈرون طیارے فضائی لڑائی بھی لڑیں گے ۔ امریکی فضائیہ کو فی الوقت536ڈرون جاسوس طیاروں اور350لڑاکا اور بمبار ڈرون طیاروں سے لیس کیا گیا ہے۔
پینٹا گا ن کے لیے اسلحہ خریداری شعبے کے سربراہ ایشٹن بی کارٹر کے بموجب ڈرون طیاروں کے فروغ کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ڈرون طیاروں کی فروخت بڑھتی جائے گی۔ پینٹا گا ن نے امریکی کانگریس سے گذارش کی ے کہ آئندہ برس اس کو ڈرون طیاروں کی خریداری کے لیے کوئی پانچ ارب ڈالر کی رقم دی جائے۔ پینٹا گا ن 2030ء تک امریکی مسلح افواج بشمول فضائیہ ، بحریہ کو جدید ترین ڈرون جاسوسی طیاروں‘ بمبار ڈرون طیاروں اور لڑاکا ڈرون طیاروں سے لیس کر دینے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔ جدید ڈرون طیارے اسلحہ اور نیو کلیئر بمبوں کے ذخائر کا بھی سراغ لگا سکتے ہیں ۔کہیں بھی غیر معمولی فوجی نقل وحرکت کے بارے میں فی الفور آگہی دے سکتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے انسداد کی لڑائی میں ڈرون طیاروں کے استعمال کے سبب اہم اور بڑی کامیابیاں ملیں ۔ ان کا میابیوں میں اسامہ بن لادن جیسے مطلوب دہشت گردوں کی ہلاکت بھی شامل ہے ۔ اسامہ بن لادن کی سکونت گاہ کی نشاندہی چمگاڈر کے پروں جیسے پروں والے ڈرون طیارے نے کی تھی۔ اس جدید ڈرون طیارے کو پہلی بار افغانستان کی ایک طیرا نگاہ پر دیکھا گیا تھا ۔ افغانستان میں یہ ڈرون طیارہ ’’ قندھار کا بھیڑیا‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ہے ۔
اوباما انتطامیہ کے عہدیداروں کے بموجب ڈرون طیاروں کی جارحانہ مہم نے القاعدہ کو مفلوج بنا دینے میں بڑی مدد دی ہے اور افغانستان سے امریکی فوجوں کو واپس لانے کی کارروائی کو آسان بنادیا ہے ۔ 2006ء سے اب تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں کوئی 1900سے زائد باغی جنگجو ہلاک ہوائے ۔ اپریل کے مہینے میں امریکی فوجوں نے لیبیا میں معمر قذافی کی فوجوں کے خلاف ڈرون طیاروں کا استعمال شروع کیا۔ گذشتہ مہینے C IA نے ڈرون طیارے کا استعمال کرتے ہوئے یمن میں روپوش ایک امریکی نژاد مسلم عالم انور عولقی کو میزائل حملہ کر کے ہلا ک کیا۔
ڈرون طیارے بڑی جسامت کے ہوں یا چھوٹی جسامت کے امریکی عوام ‘ امریکی حکومت کی جنگوں سے بالکل بے تعلق ہو گئے ہیں ۔ عسکری اخلاقیات کے حامل امریکی فوجی عہدیدار یاعتراف کرتے ہیں کہ ڈرون طیارے آئندہ جنگوں کو ایک ویڈیو گیم کا جیسا بنادیں گے ۔ ہلاکتیں شہری آبادیوں کی ہوں گی اور کسی امریکی کو ہونے والی جنگ سے کوئی راست ضرر نہیں پہنچے گا۔ ڈرون طیاروں کے بل پر امریکہ دنیا میں کسی بھی جگہ جنگ لڑ سکے گا۔ ڈرون طیاروں نے ہر دن کے اختتام پر اطلاعات کا تجزیہ کرنے والوں کے لیے بھی ایک بحران پیدا کر دیا ہے ۔ کیوں کہ ڈرون طیاروں کے سبب ویڈیو کا ایک سیلاب امنڈ آتا ہے۔
ایلزیبتھ لومیلر اور تھوم شنکر


بھارتی خفیہ ادارہ ’’ را‘‘ بھی بدعنوانیوں کی زد میں

$
0
0
آج کل ہندوستان کے ہر اہم شعبہ میں اسکینڈلز کا دور دورہ چل رہا ہے ۔ اس سے بھارتی خفیہ ایجنسی بھی محفوظ نہیں رہی۔ بھارت کی نہایت اہم ایجنسی ریسرچ اینڈ اٹالیسس ونگRAW کے بارے میںآڈیٹر جنرل آف انڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ انٹیلی جنس کا یہ سب سے بڑا ادارہ بھی بدعنوانیوں کا شکار ہو گیا ہے۔آڈیٹر جنرل نے پہلی مرتبہ’’ را‘‘ جیسے اہم محکمہ کا آڈٹ کیا ہے ۔ جس میں بڑے پیمانہ پر بے قاعدگیوں کا پتہ چلا ہے۔ بد عنوانیوں کا تعلق اسرائیل سے ایسے طیارے خریدنے سے ہے جو کسی پائلٹ کے بغیر اڑانے بھرتے ہیں اورجن سے جاسوسی کاکام لیا جاتاہے۔ ان طیاروں کی خریداری میں 450کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ اسرائیلی ساخت کے یہ جہاز شہر حیدرآباد میں واقع نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن میں رکھے گئے ہیں۔ نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن ’’ را ‘‘کا ٹکنیکل ونگ سمجھا جاتاہے اوراسکی راست نگرانی قومی سلامتی کے مشیر یا خود وزیراعظم کرتے ہیں2007ء میں سلامتی امور سے متعلق کابینہ کمپنی نے اس ساخت کے طیاروں کی خریداری کیلئے 300کروڑ کی منظوری دی تھی اور یہ طیارے اسرائیل ایرو اسپیس(Aero Space) انڈسٹریز سے خریدے گئے تھے۔ اس کے بعد حکومت نے سیٹلائٹ سے مربوط کچھ اور جاسوسی الیکٹرانک آلات بھی خریدے تھے۔ لیکن اس کیلئے مناسب منظوری حاصل نہیں کی گئی۔ یہ خریداری 150کروڑ روپے میں کئی گئی۔ تمام معاملات اسرائیلی ایجنٹوں کے توسط سے ہوئے تھے۔ این ٹی ار او کے صدر نشین کو زیادہ سے زیادہ 20کروڑ کے اخراجات کرنے کا اختار حاصل ہے۔ اس سے زیادہ رقم کیلئے کابینہ کمیٹی برائے سلامتی امور سی سی ایس سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ جسکے مشیر کو وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے پتہ چلایا ہے کہ 150کروڑ روپے اسرائیلی ایجنٹوں کو ادا کئے گئے ۔ جو قطعی غیر قانونی کاروائی ہے۔ رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے یہ بھی کہا ہے کہ نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن یعنی این ٹی آر او کے دو سابقہ عہدیدارجن میں مبینہ طور پر اسکے سابق صدر کے وی ایس ایس پرساد اور موجودہ مشیر ہ جئے راگھون شامل ہیں ۔ ان دونوں نے اس سلسلہ میں یہ رقم کسی مجاز کے بغیر خرچ کی ہے۔ اصولی حیثیت سے’’ را‘‘ یا این ٹی آر او راست طور پر پارلیمنٹ یا آڈیٹر جنرل کو جوابداہ نہیں ہے۔ لیکن ا س مرتبہ’’را ‘‘ کے بارے آڈٹ براہ راست بھارتی وزیراعظم کی ایماء پر ہوا ہے۔ اس آڈٹ کے احکامات اس وقت دےئے گئے جب نجی طور پر ان اکاؤنٹس کی تنسیح کرنے کیلئے ایک شخص نے درخواست کی۔ آڈیٹر جنرل کو پتہ چلا ہے کہ اسرائیلی طیارے غیرمعیاری ہیں اور ان کیلئے جو جاسوسی آلات خریدے گئے ہیں وہ بھی کار آمد نہیں ہے۔یہ پہلا اتفاق ہے کہ ’’ را ‘‘ کے اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی اور ایسی بے قاعدگیا ں اور بدعنوانیاں پہلی مرتبہ پائی گئی

امریکہ کو اسامہ کے ’’دہشت گرد شہزادے‘‘ کی تلاش

$
0
0

ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ کا بیٹا حمزہ بن لادن فرار ہونے میں کامیاب ہوگیااوراب اس نے اپنے والد کی موت کا انتقال لینے کی قسم کھائی ہے

فارن ڈیسک
ایبٹ آباد میں دنیا کے سب سے مطلوب شخص القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو خفیہ کارروائی میں ہلاکت کے دعوی کے بعد سوال یہ پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا القاعدہ بکھر جائے گا؟ اس میں قیادت کے مسئلے میں پھوٹ پڑ جائے گی اور گروپ علاقوں میں تقسیم ہو جائیں گے؟ اس طرح کے کئی سوال سامنے آرہے ہیں۔ اسامہ بن لادن پر جس وقت حملہ ہوا اس وقت ان کے افراد خاندان ساتھ تھے۔ ان کے ایک فرزند کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے ۔ جن کا نام خالد بن لادن ہے۔ لیکن اس مہم میں اسامہ کے ایک 20سالہ فرزند حمزہ بن لادن بچ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حمزہ بن لادن نے اب اپنے والد کی موت کا انتقال لینے کی قسم کھائی ہے۔ امریکہ نے حملے کے فوری بعد کہا تھا کہ لڑائی میں اسامہ کا ایک بیٹا حمزہ اپنے باپ کا بچاؤ کرتے ہوئے مارا گیا لیکن جب بعد میں نعشوں کی شناخت ہوئی تو ان میں حمزہ موجود نہیں تھا۔ امریکی کمانڈوز خالد کی نعش کو حمزہ کی نعش سمجھ کر اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کیونکہ حمزہ بھی امریکہ کی مطلوب فہرست میں شامل تھا۔ حمزہ کے بڑے بھائی سعد بن لادن پر 2002ء میں تیونس میں ایک یہودی عبادت خانے پر ہوئے بم حملے کی ذمہ داری عائد کی جاتی رہی۔
حمزہ بن لادن کو امریکہ نے’’ دہشت گرد شہزادے ‘‘کا نام دے رکھا ہے ۔ کیونکہ اسامہ کے فرزندوں کے جہادی سرگرمیوں سے متعلق اگر کسی کی سب سے زیادہ ویڈیوز ہیں تو وہ حمزہ بن لادن کے ہیں۔ اسامہ کی 5بیویاں اور 23بچے ہیں لیکن ان میں حمزہ کی القاعدہ کے مستقبل کے طور پر تربیت دی گئی۔ 10سال کی عمر میں ہی حمزہ نے AK47 رائفل چلانا سیکھ لیا۔حمزہ کی والدہ خیرہ حبر ان خواتین میں شامل ہیں جو امریکی حملے کے بعد سے پاکستان کی قید میں ہیں ۔ بن لادن نے ان سے 1985 میں شادی کی تھی ۔ حمزہ کا جنم1991کوہوا۔ جس وقت القاعدہ نے 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا تھا اس وقت حمزہ کی عمر 10سال تھی اور وہ طالبان کے تربیتی کیمپوں میں اکثر دیکھے جاتے تھے ۔
حمزہ کو القاعدہ کے کئی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دراصل پاکستان کی قید میں موجود خواتین کے بیانات سے ہی یہ اندازہ ہوا کہ حملے کے دو ران حمزہ نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ سی آئی اے کے عہدیدار اس کو پاکستان کی قبائلی پٹی میں تلاش کررہے ہیں۔ حمزہ کا ایک ویڈیو2001ء میں آیا تھا جو اس کے بھائی محمد کی شادی کے موقع پر لیا گیا تھا ۔ جنگجوؤں کا لباس پہنے ہوئے حمزہ کو اپنے والد اسامہ کی تعریف میں نظم پڑھتے دکھا یا گیا ہے 2005ء میں جب اس کی عمر 15سال تھی تو اس کو افغانستان کی سرحد پر ایک قبا ئلی علاقے میں جہاد پر بنائی گئی فلم میں بھی دکھایا گیا۔ لندن میں جولائی 2007ء کو ہوئے بم دھماکوں کی تیسری سالگرہ کے موقع پر اس کی آواز پر مشتمل ایک ٹیپ منظر عام پر آیا تھا ۔ جس میں برطانیہ ، فرانس اور ڈنمارک کو تباہ کردینے کی اپیل کی گئی تھی۔
حمزہ کا نام پاکستان کی مرحوم وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے معاملے میں بھی لیا جاتا ہے۔ سعد اورحمزہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ سعد پاکستان میں 2002ء میں امریکہ کے ایک ڈرون حملے میں جاں بحق ہوگیا تھا لیکن طالبان نے اس کی تردید کی تھی۔
اسامہ نے افغانستان میں اپنے قیام کے دوران تمام بیٹوں کو جمع کر کے انہیں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی تھی۔ لیکن ان کے چند بیٹوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔9/11 کے بعد اسامہ کے جو بیٹے ، بیٹیاں بالغ تھے انہوں نے سعودی عر ب میں ہی رہنے کو ترجیح دی اور باپ کے ساتھ افغانستان نہیں گئے۔ اس گروپ میں عبداللہ، علی اور عمر شامل ہیں۔ عبداللہ فیم ایڈورٹائزنگ کے نام سے مارکیٹنگ کمپنی چلاتے ہیں ۔ عمر ایک اسکریپ ڈیلرہے۔ دونوں جدہ میں ہیں ۔ عمر نے برطانیہ کی ایک فیشن ڈیزائنر سے شادی کر لی۔ اگرچہ سعودی عر ب میں رہنے والے بن لادن کے بچے مغربی طرز کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ ان کے بھائی عثمان سعد، حمزہ اور سعد افغانستان میں باپ کی طرح سادہ زندگی گذار رہے تھے۔ عثمان اور محمد ایران کی قید میں ہیں۔ جب کہ سعد، حمزہ اور خالد اپنے والد کے ساتھ سرگرم تھے ۔ سعد ڈرون حملوں میں مارے گئے ، خالد ایبٹ آباد کی کارروائی میں جاں بحق ہوگئے۔ اب صرف حمزہ باقی ہیں چونکہ حمزہ ابھی نوجوان اوناتجربہ کارہے اس لیے اسے فوری القاعدہ کی قیادت نہیں مل سکی۔ حمزہ کے پاس اب جہاد کے علاوہ ایک اور مقصد والد کی موت کا انتقام بھی ہے۔ چنانچہ امریکہ کو القاعدہ سے زیادہ اس کی فکر ہونے لگی ہے۔

یہودیوں کی دجالی حکومت کا ایجنڈا

$
0
0
یہ خفیہ یہودی عالمی حکومت انسانیت کا خون چوسنے والی جونک ہے جو تمام دنیا میں بالخصوص مسلم ممالک میں معاشی ابتری اور موجودہ کربناک صو رتحال کی واحد ذمہ دار ہے جس نے محض دنیا کے ذرائع وسائل ، معدنیات وتیل اور دولت پر قبضہ کرنے کے لئے مسلمان ملکوں کو آپس میں جنگ وجدال میں مبتلا کر رکھاہے۔ جب بھی دنیا میں کسی ملک یا جگہ میں قتل وغارت گری ، فتنہ وفساد پھیلے یا خیر ملے تو دنیا سمجھ لے کہ یہ انہی’’ سازشیوں‘‘ کی خفیہ یہودی عالمی حکومت کی کارستانی ہے۔EGYPT-UNREST
عالمی خفیہ حکومت تیسری دنیا کے ملکوں کی ایٹمی انرجی کے سخت خلاف ہے ۔ کیونکہ’’ ایٹمی انرجی جنریٹنگ‘‘ کی بجلی نہایت سستی اور وافر میسر ہوتی ہے ، وہ اسی لئے اس کی مخالف ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس کے ذریعے تیسری دنیا کے لوگ امریکی دجالی حکومت کی غلامی سے آہستہ آہستہ نکل جائیں گے اور اپنی خود مختاری حاصل کر لیں گے ۔ اس کے لئے ایٹمی جنریٹنگ الیکٹرک سٹی کے ذریعے تیسری دنیا کے ملک اپنی پس ماندگی دور کرلیں گے، اس لئے خفیہ عالمی حکومت اورتین سو سازشیوں کی کمیٹی چاہتی ہے کہ تیسری دنیا کے ملک پسماندہ ہی رہیں۔ کسی ملک کے لئے بیرونی ملکوں کی امداد پر انحصار کرتے ہیں، وہ امریکہ کی کونسل آف فارن ریلیشن کی غلامی میں چلے جاتے ہیں۔اس کی مثال پاکستان، موغابے اور زمبابوے ہے۔ زمبابوے اور موغابے کے قدرتی وسائل آنکس اوگلیوی نے ہڑپ کرلئے جوتین سو سازشیوں کی اس کمیٹی کا رکن ہے اور ملکہ الزبتھ کا کزن ہے۔ یہ ملک غربت کی انتہائی گہرائیوں میں ڈوب گئے ہیں۔ امریکی امداد کا مقصد یہ ہے کہ اپنے ملک کو امریکہ کے کنٹرول میں دے دیا جائے، جیسے کہ پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے۔ اور اس سے قبل مصر کے ساتھ ہوا ہے ۔
قارئین کرام! یہودیوں کی عالمی خفیہ حکومت اور تین سو سازشیوں کی کمیٹی دنیا کو کس طرح کنٹرول کرتی ہے ؟ اور خاص کر امریکہ اور برطانیہ کو کیسے اژدھائی گرفت میں لئے ہوئے ہے اور یہ بھی سمجھ میں آئے گا کہ یہ نظام دنیا کو کیسے قابو میں کر کے چلایا جارہاہے؟ وہ یوں ہے کہ خفیہ سوسائٹیاں ، تنظیمیں ، حکومتی ایجنسیاں ، بینک انشورنس کمپنیاں ، علمی کاروباراور تجارت ، تیل وپٹرول کی صنعت، لاکھوں قسم کی فاؤنڈیشنوں وغیرہ کے ذریعے300 سازشیوں کی کمیٹی اور خفیہ یہودی عالمی حکومت ایک ایسا کوٹ زیب تن کئے ہوئے ہے جو گرگٹ کی طرح ہزاروں رنگ بدلتا ہے ۔ ان سازشیوں ، خفیہ حکومت ، روشن خیالوں او رجادوگروں کے وارثوں کا ایجنڈا کیاہے؟ ڈینیو سار کا عقیدہ ، آئی سس دیوتے کا عقیدہ ، چرچز کی انتہا پسندی ، یہ خفیہ گروپ اصلی رب سے بھی زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ (نعوذ باللہ) ان کے دیوتے نے ایجنڈا پر عمل کرنے کی ہدایت کی یہ ۔ ان کی گلوبل رپور ٹ کے مطابق ان کا ایجنڈا درج ذیل ہے ، دوسرے لفظوں میںیہ 300 سازشیوں کی کمیٹی اور خفیہ یہودی عالمی حکومت کا ایجنڈاہے۔
1۔ گرجا گھروں کو خفیہ عالمی حکومت نے 1920ء سے لے کر 1930ء تک قائم کیا۔ خفیہ یہودی عالمی حکومت نے یہ محسوس کیا تھا کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی کی عبادت کے بغیر نہیں رہ سکتا، اس لئے اس نے گرجا گھروں کا ایک خفیہ ادارہ قائم کیا جو اس خفیہ حکومت کی ہدایت پر عمل کرتا ہے۔
2۔ اس کا کام تمام قوموں اور ملکوں کی خود مختاری کرنا ہے۔
3۔ تمام مذاہب خاص طور پر اسلام کو نیست ونابود کر کے صرف اپنے عقائد کو دنیا پر مسلط کرنا اور باقی رکھنا ہے۔
4 ۔ دنیا کے ہر انسان کو دماغی طور پر اپنے قابو میں لانا ہے، اس انسان کی تشریح’’ برزنسکی‘‘ نے اپنی کتاب’’ ٹیکنوٹرونک‘‘ میں کی ہے کہ وہ انسان ایسا ہوگا جیسے روبوٹ ہوتاہے۔
5 ۔ انڈسٹریلائزیشن اور نیو کلیئر بجلی کی ’’ پیداوار برائے امن‘‘ کو تباہ کرنا ہے۔ امریکہ کی انڈسٹری کے سوا باقی تمام دنیا کی انڈسٹری کو تباہ کرنا ہے۔ امریکی کمپیوٹرز اندسٹری کو باقی رکھنا ہے تاکہ تمام دنیا کو بعدمیں سپلائی کی جاسکے۔ انڈسٹری کو تباہ کرنے کے بعد بیروزگار مزدوروں کو ہیروئن، کوکین اور افیون کا عادی بناناہے۔ گلوبل رپورٹ2000ء کے مطابق اس طرح انسانیت کو تباہ کرنا ہے۔
6 ۔ بے حیائی، فحش نگاری اور مخلوط نظام کو جائز قرار دینا ہے۔
7 ۔ دنیا کے بڑے شہروں کی آبادی کو اس طرح ختم کرنا ہے جیسے کمبوڈیا کے پال پوٹ نے نسل کشی کی تھی۔ پال پوٹ کو نسل کشی کا یہ منصوبہ’’ امریکی کلب آف روم‘‘ نے تیار کر کے دیا تھا۔ یہ ایک حیران کن باتegypt-cairo_2644407b ہے کہ 300 سازشیوں کی کمیٹی نے پھر پال پوٹ قصائی کو کمبوڈیا میں دوبارہ روبہ عمل لانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
8 ۔ تمام سائنٹفک ترقی کو روک دینا ہے سوائے اس کے جو 300 سازشیوں کی کمیٹی کے لئے کارآمد ہوگی۔ خاص کر اس کمیٹی کا ٹارگٹ پرامن ایٹمی نیو کلیئر انرجی کی پیداوار ہے۔ پگھلے ہوئے تجربات کو یہ کمیٹی حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کمیٹی کا زرخرید پریس یہ کام سرانجام دے رہا ہے۔ یہ کمیٹی چاہتی ہے کہ قدرتی وسائل کو صرف ٹارچ کی روشنی جتنا استعمال کیا جائے۔ کیونکہ اس کمیٹی کی نظر میں یہی انسان کیلئے مفید ہے اور یہی لوگ ریموٹ کی طرح ہوں گے۔
9۔ قوموں کے مورال کو کم کرنا ہے، مزدور طبقہ کا مورال ختم کرکے اس میں بیروزگاری پیدا کرنی ہے اور زیروگروتھ پالیسیاں متعارف کرانا ہے۔ کلب آف روم کے منصوبے کے مطابق مزدور کلاس کو پست ہمت کرکے اسے نشہ آور ادویات ، شراب ، کوکین اور پاپ میوزک کا رسیا بناناہے ۔ نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لئے راک میوزک اور نشہ کے ذریعے خاندانی نظام میں سرنگ یا نقب لگا کر اسے تباہ کرنا ہے۔ اب تک یہ یورپ اور امریکہ میں تو ہوچکاہے، ایشیاء میں کیا جارہاہے اور خاص کر مسلم ممالک کو اس سلسلے میں ٹارگٹ بنالیا گیاہے۔
یہ ہے یہودیوں کا ایجنڈا ، مسلمان ممالک سب جانتے ہیں ، سب سمجھتے ہیں لیکن کچھ کرنے کو تیار نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہودیوں کی غلامی میں اس طرح پھنس چکے ہیں کہ اب اس میں نکلنا ان کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔دیکھتے ہیں مسلمان ملکوں میں کو ن بیدار ہوتا ہے اور وہ یہودیوں کے اس ایجنڈے کی بیج کنی کر سکے گا۔

غزہ کی تباہی اورمغرب کی سودے بازی

$
0
0
اسرائیل جانتا ہے کہ غزہ پٹی میں ایک حد تک تو پیش قدمی کی جا سکتی ہے، آگے بڑھنا موت کے کنویں میں چھلانگ لگانے کے متراف ہے
چند ہفتوں کی جنگ میں 1984 ہلاک، 9814 زخمی، 9 ہزار مکان تباہ،60 مساجد شہید،
انٹرنیشل ڈیسک
یہ ہیں غزہ پٹی میں اسرائیلی جارحیت کے کچھ اعداد و شمار جو غزہ میں اسرائیل کی بربریت کی کہانی بیان کر رہے ہیں جو دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ غزہ کو اسرائیل نے کس طرح تباہ کیا، لاشوں کا پہاڑ بنایا۔ اسرائیل کا مقصد کیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل تمام حدوں کو پار کر رہا ہے مگر Israeli - Gaza conflict, Gaza, Palestinian Territories - 18 Jul 2014دنیا خاموش ہے، اس مرتبہ غزہ کی جنگ نے جہاں اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی انتہاکا دیدار کرایا ہے وہیں عرب دنیا کی گندگی کو بھی اجاگر کیا ہے۔ جنگ بندی کے نام پر دراصل غزہ میں تباہی کے اعداد و شمار سامنے آ سکے ہیں کیونکہ فی الحال فلسطینوں کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپی یونین اور دیگر مغرب زدہ ممالک غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ لے کر آئے ہیں مگر اس کے عوض میں حماس کا سر چاہتے ہیں۔ یہ ممالک غزہ میں چار چاند لگانے کو تیار ہیں مگر اس کے لئے غزہ کو حماس کا خاتمہ قبول کرنا ہو گا۔صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل کی جارحیت کے بعد اس کو سزا دینے کے بجائے مغرب نے فلسطینوں سے امداد کی قیمت وصول کرنی شروع کر دی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کی حیوانیت پر لعنت بھیجی ہے، اس کو جنگی جرائم قرار دیا ہے اور اسرائیل کی بربریت پر مذمت کی ہے مگر مذمت اور تنقید سے آگے اقوام متحدہ بھی نہ بڑھا سکا جب کہ امریکہ خود کہہ رہا ہے کہ اسرائیل غلط کر رہا ہے مگر دنیا میں سب سے کنٹرول رکھنا ممکن نہیں۔
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں کے دوران 69مساجد شہید ہوئی ہیں۔ اسرائیل نے اسپتالوں، اسکولوں اور مساجد کو چن چن کر نشانہ بنایا ہے۔ تقریباً 150 مساجد کو نقصان ہوا ہے، اسکول، اسپتال اور مساجد پر حملوں نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اسرائیل کی درندگی کا کیا عالم ہے۔ یتیم خانے اور معذور بچوں کے اسکول کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اب غزہ پٹی کے تباہ حال فلسطینی ملبے سے سامان چن رہے ہیں مگر ان کے سر اٹھے ہوئے ہیں کیونکہ اسرائیل نے غزہ پٹی میں زمینی حملے کا آغاز کر دیا تھا تو یہی کہا تھا کہ غزہ کی زمین کو ہموار کر دیا جائے گا، تمام عمارتوں کو زمین بوس کر دیا جائے گا مگر زمینی جنگ میں جب اسرائیل کو فوجیوں کا جانی نقصان ہوا تو اسرائیل کو بہت کچھ سوچنا پڑا۔ 97 فوجیوں کو گنوانے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی سے انخلاء کیا ہے جس بار ے میں مغربی تجزیہ کار وں نے کہا ہے کہ اسرائیل کیلئے غزہ میں مزید اندر داخل ہونا خطرناک ثابت ہو رہا تھا۔ اسرائیل جانتا ہے کہ غزہ پٹی میں ایک حد تک تو پیش قدمی کی جا سکتی ہے، آگے بڑھنا موت کے کنویں میں چھلانگ لگانے کے متراف ہے۔‘‘
دنیا دیکھ رہی ہے کہ حماس کے ہاتھوں گوریلا جنگ کے سبق سیکھنے کے بعد اسرائیلی فوج کو واپس ہونا پڑا۔ تین یاہو حکومت کا یہی ماننا ہے کہ بمباری سب سے محفوظ راستہ ہے جس میں یک طرفہ تباہی ہوتی ہے اس لئے اسرائیل کو غزہ پٹی سے فوج کو واپس بلانا پڑا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اپنا لوہا منوا لیا ہے کہ اسرائیل کے لئے غزہ پٹی میں حماس کے خاتمہ کی جنگ تقریباً ناممکن ہے۔ غزہ میں حماس کو زبردست حمایت حاصل ہے اور فلسطینیوں کیلئے مسلح جدوجہد میں ہی عزت ہے اور اب تو مغربی کنارہ میں بھی حماس کو مقبولیت حاصل ہے۔
اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور عرب ممالک کی کوشش ہے کہ جنگ غزہ کے بعد حماس کو شرائط اور پابندیوں کے جال میں پھنسایا جائے مگر حماس نے بھی جنگ بندی کے لئے جو شرائط رکھی ہیں ان میں غزہ پٹی کا محاصر ختم کرنا بھی شامل ہے۔ اس محاصرے نے ہی فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنایا ہے اور اس محاصرہ کے سبب حماس نے سرنگوں کا جال بچھایا ہے جن سے روز مرہ سامان غزہ لایا جا رہا ہے۔
اس جنگ نے 18 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کر دیا ہے جس کے دوران ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں مگر فلسطینیوں میں حوصلے کی کمی نہیں۔
بین الاقوامی برادری کیلئے یہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ اسرائیلی حملوں کی اقوام متحدہ نے جنگی جرائم قرار دیا مگر اس کے باوجود اسرائیل کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ غزہ کے فلسطینیوں کو پیش کش کی جا رہی ہے کہ اگر حماس کا ساتھ ترک کریں تو ان کی زندگی سنوار دی جائے گی۔ تعمیر نو کا حصہ شروع ہو جائے گا، امداد کی بارش ہو جائے گی اور غزہ کو ہرا بھرا بنا دیا جائے گا۔ ایسے وقت میں جب برطانیہ ہو، فرانس، امریکہ یا اٹلی سب کو غزہ پٹی کی غیر مشروط حمایت اور مدد کرنی چاہئے تھی۔ اس وقت زخموں سے چور فلسطینوں سے یورپی برادری حلف نامہ پر دستخط لینے کی کوشش کر رہی ہے کہ ghazaحماس کہ ہم مسترد کرتے ہیں۔ یورپی برادری کو سوچنا ہو گا کہ جنگ غزہ نے فلسطینیوں کو مزید ہمت اور حوصلہ دیا ہے۔ غزہ میں تباہی کے باوجود کوئی اس بارے میں سوچنے کو تیار نہیں ہے کہ حماس کا ساتھ چھوڑ دیا جائے، اس کے برعکس مغربی کنارے میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور فلسطنینوں کی نظر میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی عزت دو کوڑ کی ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود زخموں سے چور فلطینیوں سے یورپی برادری سودے بازی کر رہی ہے۔ تم حماس کو چھوڑ، تو ہم دوا دیں گے۔ تم حماس کو بھول جاؤ تو ہم مکان دیں گے۔
فوج کی واپسی کا راز
حیرت کی بات یہ ہے کہ زمینی حملے کے بعد بلند بانگ دعویٰ کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یا ہونے بغیر جنگ بندی فوج کو غزہ سے واپسی بلایا۔ دنیا یہی سمجھ رہی تھی کہ حماس کی کمر ٹوٹ گئی ہے یا حماس بے دم ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ دراصل زمینی جنگ نے اسرائیل کو پسینہ پسینہ کر دیا تھا اور اسرائیل نے جنگ بندی کے بغیر فوج کو غزہ سے باہر نکال کرآرام گاہ تک پہنچا دیا تھا۔ اسرائیلی اخبارات نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوجی 15روزہ زمینی جنگ کے بعد تھک گئے تھے اور لا تعداد فوجیوں کی ہلاکت کے سبب جذباتی طور پر کمزور ہو گئے تھے، کیونکہ دنیا بھر کے اخبارات میں ایسے فوٹو شائع ہوئے تھے جن میں اسرائیلی فوجیوں کو اپنے ساتھیوں کے تابوت پر روتے بلکتے دکھایا گیا تھا۔ یہی نہیں، اب اسرائیل میں تیتن یا ہو کی فوجی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگایا جا رہے کہ جنگ بندی کے اعلان کے بغیر فوج کو کیسے واپس بلا لیا مگر نتین یاہو کے لئے یہ کہنا ممکن نہیں کہ فوج تھک گئی تھی۔ فوجیوں کے حوصلے پست ہو رہے تھے اور ساتھیوں کی ہلاکت انہیں توڑ رہی تھی۔ ایک سینئر اسرائیلی فوجی افسر کے مطابق جنگ غزہ میں اب تک اسرائیل کا مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اس حد تک تباہی کی جائے کہ حماس کا زور ختم ہو جائے اور عوام حماس کو سب سے بڑی مصیبت تسلیم کرنے کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو قبول کر لیں۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی تباہی کا اصل مقصد فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کا خاتمہ کرنا ہے تا کہ مغربی کنارے کے ساتھ غزہ بھی فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہو جائے جو کہ محمود عباس کی سیاسی و سفارتی دوکان ہے جو غزہ کی تباہی کے دوران فلسطینوں کے بجائے اسرائیل کے ترجمان نظر آتے تھے۔

نوبیل امن انعام کی سیاست اور ملالہ

$
0
0
ملالہ اور نبیلہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ دونوں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ تاہم ایک مغرب کی آنکھ کا تارہ ہے جبکہ دوسری کی بات سننا بھی مغرب اور اس کے حواریوں کو گوار نہیں
اکتوبر2012ء کی ایک سہانی دوپہر ہے۔ شمالی وزیرستان میں ایک آٹھ سالہ بچی نبیلہ رحمان اپنے بھائی بہنوں اور دادی کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی ہے۔عید الاضحی قریب ہے۔ نبیلہ کی دادی اپنے پوتے پوتیوں کو بھنڈی کی کھیتی سے بھنڈی چننا سکھا رہی ہے۔ کسے خبر تھی کہ آج ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہونے والا ہے جو نبیلہ کے ہنستے کھیلتے خاندان کی زندگی کا دھارا بدل کے رکھ دے گا۔ ناگہاں بچوں کو آسمان میں ایک خاص قسم کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ امریکی ڈرون ہے، ایک ننھی سی طیارہ نما مسلح مشین جس کی گونج اس خطے کے باشندوں کے لیے ایک معمول بن چکی ہے۔ یہ ڈرون ہر وقت فضاؤں میں لوگوں کے تعاقب میں منڈلاتے رہتے ہیں۔ اچانک ڈرون سے ہلکی سی کلک کی آواز آتی ہے اور اس سے نکلنے والے گولے نبیلہ کے کنبے پر برسنے لگتے ہیں۔ حیرت اور دہشت کی ملی جلی کیفیت میں نبیلہ کو اس کے سات بھائی بہن خاک اور خون میں غلطیدہ نظر آتے ہیں۔ نبیلہ کی ضعیف دادی اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیتی ہے۔ بھرا پرا کنبہ بکھر جاتا ہے۔ اس حادثے پر آج تک سی آئی اے اور امریکہ کی طرف سے کوئی معذرت، ہرجانہ یا توجیہہ نہیں پیش کی گئی۔ نبیلہ کے ننھے سے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ آخر کیوں ، کس جرم میں، اس کے معصوم بھائیوں اور دادی پر حملہ کیا گیا؟
دو سال بعد، اکتوبر2014ء میں، نبیلہ یہی سوال لیے اپنے ٹیچر والد اور بارہ سالہ بھائی کے ہم راہ امریکہ کا رخ کرتی ہے۔ اسے امید ہے کہ یہاں اس کی شنوائی ضرور ہو گی۔ لیکن افسوس ان کی توقع کے برعکس انہیں ہر سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نہ میڈیا ان کو کوریج دیتا ہے اور نہ اربابِ حکومت ہی ان کی بات پر کان دھرتے ہیں۔ آخر کار امریکی کانگریس کی ایک مجلس میں نبیلہ کے کنبے کو اس واقعہ کی شہادت کے لیے تاریخ مل ہی جاتی ہے۔ اس مجلس میں340 ارکان کی شرکت متوقع تھی۔ مگر محض ۵ لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ نبیلہ کے والد ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اتنی صعوبتیں جھیل کر امریکہ کا سفر محض اس لیے کیا ہے کہ بحیثیت ٹیچر وہ امریکیوں کو بتا سکیں کہ ان کے بچے اور ان کی والدہ کوئی دہشت گرد نہیں تھے ، اور نہ ہی وہ دہشت گردوں جیسے نظر آتے تھے۔ اس قسم کے سینکڑوں واقعات اس خطے میں ہوتے رہتے ہیں ، جنہیں یکسر بند ہونا چاہیے۔
اب ایک اور منظر ملاحظہ کیجیے۔
نبیلہ اور اس کے کنبے پر حملے سے محض دو ہفتے پہلے، یعنی اوائل اکتوبر ۲۱۰۲ کی ایک دوپہر،سوات کی گل پوش وادی سے ایک پرائیویٹ اسکول کی وین بچوں کو لیے اسکول سے واپس ہو رہی ہے۔ اچانک ایک موڑ پر چند نقاب پوش وین کو روکتے ہیں اور اس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ یہ طالبان ہیں جو خطے میں لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور اسکولوں کو بند کرنا ان کا مشغلہ ہے۔ ان میں سے ایک نقاب پوش اپنی گن لہراتا ہوا غراتا ہے
malala
تم میں سے ملالہ کون ہے۔ ‘‘ تمام بچیاں سہم جاتی ہیں اور ایک15سالہ بچی کی طرف دیکھنے لگتی ہیں جو بس میں سوار واحد ایسی بچی ہے جس نے نقاب نہیں اوڑھ رکھا ہے۔ طالبان سمجھ جاتا ہے کہ یہی ملالہ ہے۔ وہ اپنی کولٹ ۵۴ ریوالور سے بچی پر تین فائر کرتا ہے۔ ایک گولی آنکھ کے قریب سے گزرتی ہوئی گلے میں لگتی ہے۔ ملالہ اپنے سہیلی منیبہ کے اوپر گرتی ہے۔ دو گولیاں اس کی ہمجولیوں کو بھی لگ جاتی ہیں۔ کائنات ریاض کا شانہ اور شازیہ رمضان کا ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے۔ طالبان ملالہ کو مردہ سمجھ کر وین سے اتر جاتے ہیں۔ ملالہ اور اس کی ساتھی سہیلیوں کو فوراً قریبی ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ملالہ کی حالت بہت نازک ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ریڈیو اور ٹی وی طالبان کی اس جارحیت پر چیخنے لگتے ہیں۔ اخباروں میں اداریے لکھے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں اس حملے کی مذمت کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی انسان دوست تنظیمیں اپنے مذمتی بیان جاری کرتی ہیں۔ پاکستان، امریکہ اور یوروپ ہر جگہ ملالہ کا تذکرہ ہے اور اس کی زندگی کے لیے اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں اور شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی صدر اوباما اپنے مشیروں سے کہتے ہیں کہ ملالہ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ ملالہ کو خصوصی طبی امداد پہنچائی جاتی ہے۔ اسے پیشاور کے ہسپتال سے ائر لفٹ کرکے لندن پہنچایا جاتا ہے جہاں برمنگھم کے ایک ہسپتال میں اس کا بہترین ڈاکٹروں کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ اور، حیرت انگیز طور پر ملالہ وہاں تیزی سے رو بہ صحت ہو نے لگتی ہے۔
اس واقعہ کے بعد ملالہ یوسف زئی بہادری اور جرات کی نئی علامت کے طور پر ابھرتی ہے۔ تاہم مغرب کے لیے اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ طالبان مخالف ہے۔ اسے امریکہ اور مختلف ممالک سے34 مختلف اعزازات سے نوزا گیا۔اقوام متحدہ نیعالمی تعلیم اطفال کے لیے2013سے ملالہ ڈے منانے کی تجویز پیش کی۔ اور اس سال کے نوبیل امن انعام کے لیے مشترکہ طور ملالہ یوسف زئی اور ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کے نام کا اعلان کیا گیا ہے۔۷۱ برس کی عمر میں ملالہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ ہے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز23سالہ یمنی صحافی و سیاست دان توکل کرمان کو حاصل تھا۔
کیلاش ستیارتھی کا تعلق مدھیہ پردیش کے ودیشہ ضلع سے ہے۔ انہوں نے اپنا الیکٹریکل انجنیرنگ کا پیشہ ترک کرکے حقوق اطفال کے تحفظ کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ وہ محض ۶۲ سال کے تھے جب انہوں نے بچپن بچاؤ آندولن کے نام سے ایک این جی او شروع کی اور انتھک جدو جہد اور مساعی کے بعد اسے ایک عالمی سطح کی تحریک میں بدل دیا۔ اس تحریک کے ذریعے ہزاروں بچوں کو بندھوا مزدوری ، جبری مشقت اور بردہ فروشی سے نجات دلائی گئی ہے۔ مختلف تنظیموں کے تعاون سے ستیارتھی نے بڑی کامیابی کے ساتھ متعدد فیکٹریوں اور گوداموں پر کامیاب چھاپے پڑوائیجہاں بچوں سے جبری مزدوری کروائی جاتی تھی۔ یہ ستیارتھی ہی تھے جنہوں نے \’رگمارک\’ جیسے منصوبے کو کامیاب کیا۔ اس منصوبے کے تحت قالین کی صنعت سے منسلک اداروں کو تصدیق نامہ دیا جاتا ہے کہ ان کے قالین بنانے میں کسی بچے سے مزدوری نہیں کروائی گئی۔ یہ منصوبہ انتہائی کامیاب رہا اور بیرون ممالک میں بچہ مزدوری کے لیے حساسیت پیدا کرنے میں اس نے خاص رول ادا کیا۔ کیلاش ستیارتھی سے ایک بار پوچھا گیا کہ انہیں اس مشن کی تحریک کہاں سے حاصل ہوئی تو ان کا جواب تھا حضرت محمدﷺ سے۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ غلاموں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے اور انہیں آزاد کرنے کو بہت بڑی عبادت قرار دیا ہے۔
ستیارتھی کا کام ہندوستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ60 سے زیادہ ممالک میں ان کی تحریک فعال ہے۔1989میں انہوں نے چائلڈ لیبر کے خلاف ایک عالمی مارچ شروع کیا جو ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے ہوتا ہوا جنیوا میں اختتام پذیر ہوا۔ ایک سال بعد بین الاقوامی محنت کشوں کی تنظیم  نے ایک قرارداد پاس کی جس کی رو سے بین الاقوامی طور پر خطرناک پیشوں سے منسلک بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ تاہم ستیارتھی بھی تنازعات سے بری نہیں ہیں۔ انہیں پراجیکٹ کرنے میں کچھ متنازعہ بین الاقوامی اداروں کے نام آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ ستیارتھی اپنے کام کے باوجود ہندوستانی میڈیا کے لیے بھی ابھی تک گمنام سی شخصیت رہے ہیں۔ بچہ مزدوری کے خلاف سب سے پہلی مہم سوامی اگنی ویش نے اپنے بندھوا مکتی مورچہ کے ذریعیچھیڑی تھی۔ ستیارتھی بھی کبھی اس تنظیم کا حصہ تھے لیکن بعد میں ان سے الگ ہو کر اپنی نئی تنظیم شروع کرلی۔ فاربس میگزین کی میگھا بہر ی لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے اس تنظیم کا دورہ کیا تو انہیں مختلف جگہوں پر لے جایا گیا جہاں سے بچوں کو \’بچایا\’ گیا تھا۔ ان کی تیز صحافیانہ نظروں نے تاڑ لیا کہ یہ محض غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا حربہ ہے۔ \”جتنے زیادہ بچے دکھائے جائیں گے اتنی ہی زیادہ غیر ملکی اعانتیں حاصل ہوں گی۔مدھو کِِشور کے مطابق 21 سال پہلے امریکی اور جرمن تنظیموں نے ستیارتھی کی تنظیم کو20 لاکھ ڈالر کا تعاون دیا تھا۔
بایں ہمہ، ستیارتھی کا کام قابلِ ستائش ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ہزاروں بچوں کو جبری مشقت سے نجات دلائی ہے۔ البتہ ان کے حق میں نوبیل امن انعام کا اعلان خالص سیاسی فیصلہ ہے۔ نوبیل پرائز کمیٹی کے الفاظ اس بات کی کھلی چغلی کھا رہے ہیں:
نوبیل کمیٹی کے نزدیک یہ امر اہم ہے کہ تعلیم کی خاطر اور تشدد کے خلاف ایک ہندو اور ایک مسلم، ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی، مشترکہ جدوجہد میں شامل ہوں۔\” یہاں انعام یافتگان کے ملی و ملکی تشخص پر زور دینا سیاسی مصلحت سے خالی نہیں ہے۔
نوبیل پرائز کمیٹی کے چیئر مین ، تھور بیورن جیگ لینڈ  نے ان الفاظ میں ملالہ کوخراج عقیدت پیش کیا ہے
اپنی کم عمری و نو خیزی کے باوجود، ملالہ کئی برسوں سے بچیوں کی تعلیم کی خاطر جدوجہد میں مصروف ہے اور اس نے اس بات کا نمونہ پیش کیا ہے کہ نو عمر لوگ بھی اپنے گردوپیش کے حالات بہتر بنانے میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس نے یہ کام انتہائی خطرناک اور ابتر حالات میں انجام دیا ہے۔ اپنی جرا?ت مندی کے باعث وہ تعلیم نسواں کی سربرآوردہ ترجمان قرار پاتی ہے۔پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اسے فخرِ پاکستان کہا۔ عمران خان نے بھی ، جو اس سے قبل مغرب کی \”ملالہ پسندی\” پر تنقید کرتے تھے، ملالہ کو نوبیل انعام ملنے پر مبارک باد دی ہے۔ تاہم پاکستان کے عوام کا تاثر ملا جلا ہے۔ جہاں بعض لوگ اسے ستارہ جرات مانتے ہیں ، وہیں بعض افراد اسے امریکہ کا ایجنٹ بھی سمجھتے ہیں۔
ملالہ کو شہرت اس پر حملے سے کئی برس پہلے مل چکی تھی۔2009 میں نیو یارک ٹائمز کی ایک ڈاکیومنٹری فلم میں ملالہ کو پروفائل کیا گیا تھا۔ ڈاکیومنٹری کا عنوان تھا’’ کلاس ڈسمسڈ‘‘۔ اس وقت ملالہ محض 11 سال کی تھی۔فلم میں ملالہ اوباما کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کرتی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن میں اس نے خاطر خواہ تعاون دیا ہے۔2011 میں ڈیسمنڈ ٹوٹو نیملالہ کو بچوں کے عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا تھا۔ یہ اعزاز ملالہ کو گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی اردو میں بلاگنگ کرنے اور عالمی میڈیا کو خطے کے حالات سے باخبر کرنے میں اس کے تعاون کے اعتراف میں دیاگیا تھا۔ بہت سے لوگ تعجب کرتے تھے کہ آخر سات آٹھ سال کی بچی سیاسی ڈائریاں کیسے لکھ سکتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ بعد میں مختلف ذرائع سے یہ بات سامنے آئی کہ گل مکئی نے نہیں بلکہ بی بی سی کے نمائندے عبدالحئی کاکڑ نے یہ ڈائریاں لکھیں اور اس کے لئے ملالہ اور اس کے والد سے اجازت لینے کے ساتھ ان کو معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا۔
گل مکئی کے فرضی نام سے ملالہ نے 2009میں بی بی سی پر ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔ ڈائری لکھنے کی وجہ اس کے اسکول کا بند ہونا بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اس کا اسکول بند کردیا تھا اور ملالہ کو اپنی تعلیم جاری نہ رکھنے کا بہت ملال تھا۔ یہاں یہ بات واضح کردی جائے کہ ملالہ یوسف زئی اپنے والد ضیاء الدین یوسف زئی کے اسکول خوشحال پبلک اسکول اینڈ کالج میں زیر تعلیم تھی اور اس اسکول کو نہ تو اس وقت تک دھمکیاں دی گئیں تھیں اور نہ ہی بند کیا گیا تھا اس لیے یہاں یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ ملالہ کا اسکول بند ہوگیا تھا جس کے باعث اس نے ڈائری لکھنا شروع کی۔ ملالہ پر حملہ قابل مذمت ہے اور وحشت و بربریت کا کھلا ثبوت ہے لیکن ان ہزاروں بے گناہ اور معصوم افراد اور بچوں کو کیوں فراموش کردیا گیا جن کے جسموں کے چیتھڑے ڈرون حملوں سے اڑائے گئے، جنہیں کفن اور جنازہ بھی نصیب نہ ہوا۔مگر ان کے لیے نہ کوئی آنکھ روئی ، نہ دعا کے لییکوئی ہاتھ اٹھا، نہ کسی اسمبلی میں قرار داد پاس کی گئی، نہ کوئی واک آؤٹ ہوا اور نہ شمعیں جلائی گئیں۔ ملالہ کی صلاحیتوں سے انکار نہیں ہے، لیکن پاکستان میں ایسے دسیوں بچے ہیں جو غیر معمولی طور پر ذہین ہیں، مضامین لکھتے ہیں اور ٹی وی پر بھی آتے ہیں۔ ملالہ کو طالبان مخالف آئیکن کی حیثیت سے مغربی این جی اوز نے منتخب کیا۔ اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اکثر اس کی ملاقات امریکی فوج کے سینیئر افسران، صحافیوں اور ڈپلومیٹس سے کرائی جاتی تھی جیسا کہ ڈاکیومنٹری سے ظاہر ہے۔ ملالہ کو نوبیل دے کرمغرب نے یہ پیغام دیا ہے کہ تعلیم نسواں کے تئیں اسلام اور مسلمانوں میں کوئی اہمیت نہیں پائی جاتی۔ لڑکیوں کے ساتھ اسلامی معاشرے میں امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ملالہ نے نہ صرف طالبان سے مخالفت میں بلکہ تمام مسلم معاشرے کی مخالفت میں ناموافق حالات میں تعلیم نسواں کی وکالت کی ہے اور تعلیم اور مساوات جیسی اعلی مغربی اقدار کو فروغ دیا ہے۔ ایسے’’تاریک معاشرہ ‘‘ میں ملالہ نے جو شمع روشن کی ہے اس کا صلہ نوبیل سے کم کیا ہوگا۔
ملالہ کی شخصیت تو شروع سے متنازع تھی ہی ، رہی سہی کسر اس کی کتاب آئی ایم ملالہ نے پوری کر دی۔ کتاب پڑھیے تو اس میں جا بجا دل آزار باتیں ملیں گی۔ سلمان رشدی کی حمایت، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے واقعہ اور ناموس رسالت کے قانون وغیرہ کو آزادی اظہار کا مسئلہ بناکر پیش کرنا۔ یہ سب پڑھ کر لگتا نہیں کہ یہ سولہ سالہ بچی کی آواز ہے۔ کتاب لکھنے میں کرسٹینا لیمب نے ملالہ کی معاونت کی تھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ بات معاونت سے آگے بڑھ کر رنگ آمیزی تک جا پہنچی ہے۔ مستشرقین کے جتنے اعتراضات اسلام پر ہیں کم و بیش تمام اس کتاب میں مل جائیں گے۔ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن نے تمام پاکستانی پرائیویٹ اسکولوں میں ملالہ کی کتاب پر پابندی عائدmalala-noble-prize-2014 کر دی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ کتاب کے متن میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو سکول کے بچوں کو ابہام میں مبتلا کر دیں گی۔
ایک تجزیہ نگار ڈیوڈ سوانسن لکھتا ہے کہ ملالہ کا مغربی میڈیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ مغربی استعمار کے دشمنوں کا شکار ہوئی تھی۔ اگر وہ سعودی حکومت یا اسرائیل یا کسی بھی ایسی حکومت کی جارحیت کا شکار ہوئی ہوتی جنہیں مغربی ممالک اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو نہ تو ہمیں اس پر حملے کی بھنک لگتی اور نہ اس کے اچھے کاز کی خبر ملتی۔ اگر وہ محض پاکستان یا یمن میں ڈرون سے شکار ہونے والے بچوں کی وکالت کرتی توآج امریکی ٹی وی ناظرین کے لیے بالکل اجنبی ہوتی۔
چین میں بھی میڈیا ملالہ کے انعام کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے۔ چینی میڈیا کے مطابق یہ انعام پاکستان اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کو مثبت انداز میں دکھانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈائرکٹر ڑاو گانشنگ کے مطابق :ملالہ کا پروپیگنڈا افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا۔ مغرب ملالہ کی کہانی کو دیگر ممالک میں اپنی فوجی مداخلت کو حق بجانب ٹھہرانے اور اس کے روشن پہلو مثلاً تعلیم نسواں اور سیاست میں خواتین کی شمولیت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ اس کے تاریک پہلو مثلاً بڑھتا ہو تنازع اور پیچیدگی اور بڑے پیمانیپر شہریوں کی ہلاکت کو دبایا جارہے۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر میک کنسے اینڈ کمپنی کے بارے میں بہت اپڈیٹس آرہے ہیں۔ یہ عالمی مینجمنٹ کنسلٹنگ کمپنی ہے جو ملالہ پراجیکٹ کے پیچھے کار فرما ہے۔ ملالہ کی میڈیا پروموشن بہت کچھ اسی کمپنی کا کارنامہ ہے۔
نوبیل امن انعام ہمیشہ متنازع رہے ہیں۔ یہ انعامات یا تو خوشامدی نوعیت کے ہوتے ہیں جو یوروپ اور امریکہ کی سیاسی شخصیات کو خوش کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں یا پھر سرے سے غیر منطقی۔ اس سال کل287 نامزدگیاں تھیں جن میں پوپ فرانسس ، کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مکویج اور ایڈورڈ اسنوڈین جیسے اہم نام شامل تھے۔ عموماً نوبیل امن ایوارڈ امن پسند افراد یا تنظیموں کو ہی دیا جاتا ہے لیکن اس کی تاریخ ایسی بھی رہی ہے کہ انتہائی وحشیانہ ماضی رکھنے والوں کو بھی یہ انعام ملا ہے۔ ایسے لوگوں میں سرِ فہرست ہنری کسنجر ہے جسے1947میں شمالی ویتنامی لیڈر لی ڈک تھو کے ساتھ مشترکہ طور پر امن انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا۔ کسنجر کو یہ انعام ویت نام میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے دیا گیا جب یہ جنگ اس انعام کے دو سال بعد تک جاری رہی۔۔ لی ڈک تھو نے یہ کہہ کر انعام لینے سے انکار کردیا تھا کہ امن معاہدے پر عمل درآمد ہی نہیں ہوا تو امن انعام کس بات کا؟ کسنجر تاریخِ عالم کے بدترین جنگی جرائم کا مجرم ہے جس نے ویتنام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا اور ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔ امن انعام حاصل کرنے کے بعد بھی کسنجر کمبوڈیا کی جنگ میں بربریت کا ننگا ناچ ناچنے سے باز نہیں آیا۔
1949 میں فلسطین کے یاسر عرفات اور اسرائیل کے شمعون پیریز اور اضحاک رابن کو مشترکہ امن ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شمعون پیریز اسرائیل کو نیو کلیئر قوت بنانے کے لیے ذمہ دار تھا۔ اس کے بعد ۶۹۹۱ میں اس پر لبنان کے قانا میں قتلِ عام کروانے کا بھی الزام ہے جس میں106 افراد ہلاک اور112زخمی ہوئے تھے۔ رابن اسرائیل کی ملٹری میں افسر تھا جس نے1984 کے نکبہ میں فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے تھے اور انہیں ان کے وطن سے ہجرت پر مجبور کیا۔ یہ شخص بھی ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بنا۔
2009میں جب نوبیل کا امن ایوارڈ امریکی صدر باراک اوباما کی جھولی میں ڈالا گیا تو ساری دنیا پرائز کمیٹی کی اس ستم ظریفی پرششدر رہ گئی۔ اوباما کو صدارت سنبھالے ابھی 21 دن ہی ہوئے تھے کہ ان کی غیر معمولی امن مساعی کی خاطر ان کی نامزدگی عمل میں آگئی۔ جبکہ اوباما نے پاکستان اور افغانستان میں ڈرون آپریشن کو آگے بڑھایا، لیبیا پر بم برسائے اور اب شام پر فوج کشی کر رہا ہے۔ 2012میں یہ انعام یوروپین یونین کو دیا گیا جبکہ سب جانتے ہیں کہ اس کی ماتحت عسکری تنظیم ناٹو افغانستان اور لیبیا میں جارحیت کے لیے ذمہ دار ہے۔2010میں ایک چینی لیو شیاوبو (Liu Xiaobo) کو اس انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ جبکہ اس سے ایک برس پہلے لیو کو 1989میں دنگے بھڑکانے کی پاداش میں ۱۱ سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ چین کی وزارت خارجہ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ لیو شیاوبو ایک مجرم ہے جس نے چینی قانون کو توڑا ہے یہ نوبیل انعام کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور ایسے شخص کو انعام دینا خودامن انعام کی توہین بھی ہے۔1978میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے لیے مینکم بگن (Menachim Begin) کو امن انعام دیا گیا۔ یہ غاصب صیہونی اسرائیلی ریاست کے معماروں میں سے ایک تھا جو اسرائیل کا وزیر اعظم بھی بنا۔ بگن دنیا کی پہلی دہشت گرد تنظیم اِرگْن کا سرغنہ تھا جس نے1964 میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل میں بم دھماکہ کیا تھا۔ اس حملے میں19 جانوں کا اتلاف ہوا تھا۔
یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ نوبیل انعامات کی پوری تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
فریڈرک ہیفرمہل ناروے کے ایک وکیل ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے نوبیل پرائز کمیٹی کو اس بات پر آمادہ کرنے میں مصروف ہیں کہ امن انعام کے لیے الفریڈ نوبیل کی وصیت پر صحیح طور سے عمل درآمد ہو سکے۔ ہیفرمہل نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب \’Nobel Peace Prize: What Nobel Really Wanted\’ میں انہوں نے1910سے2009تک کے تمام119نوبیل امن انعامات کا تجزیہ کیا اور ثابت کیا ہے کہ ان میں سے بیشتر انعامات دینا نوبیل کی وصیت کے عین منافی تھا۔ ان کے مطابق گذشتہ دس انعامات میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی تمام انعامات بلاجواز اور غیر قانونی ہیں۔ الفریڈ نوبیل نے1859 میں اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ امن کا انعام اس فرد کو دیا جائے جس نے گذشتہ برس میں اقوام عالم کے بھائی چارے کے لیے، جاری عسکری جارحیت کے سدباب کے لیے اور امن عالم کے لیے مجلس سازی اور ان کیانعقاد کے لیے سب سے بڑھ کر اور سب سے بہتر کام کیا ہو۔
ہیفرمہل حالیہ انعام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہر چند کہ ملالہ یوسف زئی بہادر ہے، ہو نہار ہے اور دلکش شخصیت کی حامل ہے۔ بچیوں کی تعلیم بہت اہم ایشو ہے اور بچوں کی مزدوری کے افسوسناک مسئلہ سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں کاز قابل ستائش ہیں۔ لیکن نوبیل کمیٹی نے ایک بار پھر نوبیل سے وفاداری کا ڈھونگ کیا ہے اور امنِ عالم کے اس منصوبے کو مبہم اور مخفی کر دیا جس کا نوبیل نے خواب دیکھا تھا۔ اگر یہ کمیٹی نوبیل کے لیے وفادار ہوتی تو ضرور اصرار کرتی کہ ملالہ نے اسلحے اور عسکریت کے خلاف کام کیا ہو، ممالک کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کی ہو، اور اسیاس بات کا گہرا ادراک ہوکہ کیسے عسکری جارحیت تلے عوام مصائب سے دو چار ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل اس بات کو بزرگوں سے بہتر جان سکتی ہے۔
ملالہ اور نبیلہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ دونوں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ تاہم ایک مغرب کی آنکھ کا تارہ ہے جبکہ دوسری کی بات سننا بھی مغرب اور اس کے حواریوں کو گوار نہیں۔ مغرب کے لیے قابلِ اعتنا صرف وہی ہیں جو ان کے دشمن کے ہاتھوں جارحیت کا شکار ہوتے ہیں۔ایسی بے حس ، مصلحت کوش اور ترجیح پسند دنیا میں نبیلہ جیسے بچوں کے لیے شاید ہی کوئی ایوارڈ سیرمنی ہو گی اور شاید ہی اس کے آنسو پونچھنے کے لیے کوئی آگے آئے گا۔ ایسے حالات میں امن کے ان ٹھیکیداروں کے ذریعے عالمی امن انعام کا اعلان ایک الم ناک اور بیہودہ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اسرائیل کیخلاف فلسطین میں نئی تحریک کاآغاز

$
0
0
فلسطین کے محاصرہ زدہ گنجان آباد علاقے غزہ کی پٹی میں جولائی اور اگست کے دوران51 روز تک جاری رہنے والی خونخوار صہیونی سفاکیت اور جارحیت کے زخم ابھی مندمل نہیں ہونے پائے تھے کہ غاصب ریاست نے مقبوضہ مغربی کنارے، بیت المقدس اور شمالی فلسطین کے نہتے عرب باشندوں پرمشق ستم کا ایک نیاسلسلہ شروع کردیا۔ایک ماہ سے مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن میں جاری اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ پربھی یہودی دست درازی کرنے لگے ہیں۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق نہتے فلسطینیوں نے بھی بساط بھر صہیونی جارحیت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔
تازہ احتجاجی تحریک کو ایک ماہ ہونے کو ہے اور اس میں روز مرہ کی بنیاد پر شدت آتی جا رہی ہے۔ وحشیانہ کریک ڈاؤ ن کے باوجود فلسطینی ہر روز گھروں سے نکلتے اور یہودی شرپسندوں کے خلاف احتجاجی جلوس اور ریلیاں منعقد کرتے ہیں۔ پکڑ دھکڑ ، جیلیں اور حراستی مراکز میں روح فرسا تشدد فلسطینیوں کو صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے نہیں روک سکا ہے۔
تازہ تحریک کاآغاز
اسرائیلی درندگی کے خلاف فلسطینی ویسے تو ہمہ وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں مگر بعض واقعات صہیونی ریاست کے خلاف فلسطینی قوم کو زیادہ مشتعل کردیتے ہیں جس کے بعد پورا ملک میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ غرب اردن اور بیت المقدس میں حالیہ پرتشدد تحریک کا آغاز گزشتہ جولائی میں ایک 14 سالہ فلسطینی لڑکے محمد ابو خضیر کے اغواء کے بعد یہودی شرپسندوں کے تشدد کے نتیجے میں ظالمانہ شہادت کے بعد شروع ہوا لیکن اس تحریک کو مہمیز ستمبر میں مغربی کنارے میں دو فلسطینی بچیوں کو کار تلے کچل ڈالنے کے اندوہ ناک واقعے نے دی۔
اس واقعے میں ایک چھ سالہ بچی موقع پر شہید جبکہ دوسری شدید زخمی ہوئی جو اب جسمانی طورپر مکمل معذور ہوچکی ہے۔ دونوں اسکول سے واپسی پرگھر کے قریب سڑک پار palestine-israel-hamas-fatah-2012-6-1کررہی تھیں کہ ایک جنونی یہودی آباد نے دانستہ طورپر اپنی کار ان پر چڑھا دی۔ اسرائیل کے قریباً تمام اہم اخبارات نے اس خبر کو شہ سرخی میں شائع کیا لیکن سب نے کار ڈرائیور کے دفاع میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ہر ایک نے الگ الگ پہلو سے یہودی قاتل کا بھر پور دفاع کیا لیکن عینی شاہدین اور کار کی زد میں آنے والی دونوں معصوم بچیوں کی مائیں موقع پرموجود تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سڑک سنسان تھی اور بہت دور سے یہودی آباد کار ایک ہی رفتار کے ساتھ کار چلائے چلا آرہا تھا بچیاں دور سے دکھائی دے رہی تھیں لیکن اس نے کھلی سڑک پر اپنی گاڑی کو دانستہ طورپر ان کے پیچھے لگا دیا جسکے نتیجے میں ایک بچی اچھل کر دور جا گری اور وہیں تڑپ کرشہید ہوگئی جبکہ دوسری بھی بری طرح کچلی گئی۔ اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں۔ کھوپڑی میں میں بھی گہری چوٹیں آئی ہیں۔ وہ ھنوز رام اللہ کے ایک اسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل ہے۔
اس انسانیت سوز واقعے کے بعد مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں پرتشد د مظاہرے پھوٹ پڑے۔ صہیونی ریاست نے حسب معمول مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ مگر معاملہ تھمنے کے بجائے مزید اشتعال پکڑتا چلا گیا۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں بیت المقدس میں ایک فلسطینی نوجوان نے اپنی کار یہودی آباد کاروں پر چڑھا دی جس کے نتیجے میں ایک یہودی ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر صہیونی فوجیوں نے اہالیان بیت المقدس پرقیامت ڈھا دی۔
درجنوں افراد کو نہایت بے دردی سے حراست میں لینے کے بعد انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ فلسطینیوں میں اشتعال مزید بڑھنے لگا۔ انہی ایام میں ایک دوسرے فلسطینی نوجوان نے ایک انتہا پسند یہودی ربی’’یہودا گلیک‘‘ کو فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا۔ اگلے روز اسرائیلی فوجیوں نے یہودی ربی پرحملہ کرنے کے الزام میں فلسطینی نوجوان کو اس کے گھر میں گھس کر گولیاں ماردیں اور اسے بھی ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔
اس واقعے کو ابھی تین روز ہی گزرے تھے کہ ایک اور فلسطینی وین ڈرائیور نے اپنی گاڑی اسرائیلی پولیس اہلکاروں پر چڑھاد ی جس کے نتیجے میں دوپولیس اہلکار ہلاک اور چودہ زخمی ہوگئے۔ پولیس کی فائرنگ سے فدائی حملہ آور بھی جام شہادت نوش کرگیا۔ ان واقعات نے فلسطینی شہریوں اور یہودی آد کاروں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا۔ اسرائیلی فوج نے تشدد کا دائرہ بیت المقدس سے بڑھاتے ہوئے مغربی کنارے اور شمالی فلسطین تک وسیع کردیا اور نومبر کے پہلے دس ایام میں دونوں شہروں میں پانچ فلسطینی شہید کردیے گئے۔ فلسطینیوں کی سنگ باری اور جوابی کارروائیوں میں ایک خاتون سمیت تین یہودی بھی ہلاک ہوگئے۔
اسرائیلی حکومت جب فلسطینیوں کے مظاہرے روکنے میں ناکام رہی تو اس نے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی عائد کردی۔ مسجدا قصیٰ پرپابندی ایک نیا صہیونی حربہ تھا جس پر فلسطین بھر میں شدید رد عمل ہوا۔ یہ رد عمل صرف فلسطین تک محدود نہ رہا بلکہ مسلمان ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی خلاف توقع اس کی شدید مذمت کردی۔ جب یہ سطور احاطہ تحریر میں تھیں تو یہ خبر آ رہی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اردن میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے ملاقات میں مسجد اقصیٰ پرعائد پابندیاں اٹھانے کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن اسرائیل کے اس اعلان پریقین کون کرے گا۔ اب تک کتنے ہی اعلانات، قراردادیں اور معاہدے ہوچکے جن میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کی یقین دہانی کرائی مگر وہ سب قصہ پارینہ ہوگئے۔
عملاً اس وقت فلسطین میں ایک نئی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ اسرائیل تھینک ٹینک ، ذرائع ابلاغ اور سکیورٹی ادارے یہ ماننے لگے ہیں کہ فلسطینیوں کی موجودہ عوامی مزاحمتی تحریک فیصلہ کن تحریک میں بدلتی جا رہی ہے۔ فلسطین میں یہودی شرپسندی کے خلاف فلسطینی قوم نے جس جرات اور بہادری کے ساتھ صہیونی ریاست کے خلاف پرامن احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے یہ کسی بھی قیمت پراسرائیل کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔
371098_Palestine-Israel-war
یہ تحریک اس سے قبل برپا ہونے والی دو تحاریک ہائے انتفاضہ کا ایک تسلسل ہے۔ یہ تحریک ایسے وقت میں شرو ع ہوئی ہے جب عالمی سطح پر فلسطینی ریاست میں حمایت میں سفارتی اور سیاسی مساعی بھی تیزی سے جاری ہیں۔ کئی یورپی ملکوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے جبکہ یورپی یونین نے بھی اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ فلسطینی عوام کی موجودہ تحریک انتفاضہ اگر مزید کچھ عرصہ جاری رہتی ہے تو یہ عالمی برادری، اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا کے لیے واضح پیغام ہوگا کہ فلسطینی اب آزادی سے کم کسی چیز پرراضی نہیں ہوں گے۔
اگر عارضی طورپر اس تحریک کو دبا بھی دیا گیا جیسا کہ حالات اس کا اشارہ بھی کررہے ہیں تو فلسطین میں اسرائیل کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک جلد شروع ہوجائے گی۔ عوامی انتفاضہ سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ اسرائیل فلسطینیوں کی منشاء کے مطابق انہیں آزاد او ر خود مختار ریاست تشکیل دینے کا حق فراہم کرے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ خود اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
صہیونی حکومت کے مقرب سمجھے جانے والے اخبار’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے بجا طورپر لکھا ہے کہ ’’فلسطینیوں کی تازہ تحریک اسرائیلی سیاست دانوں اور برسراقتدار اتحاد کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ اسے پڑھ لینا چاہیے۔ اب اس تحریک میں فلسطینی تنہا نہیں ہیں بلکہ انہیں عالمی برادری بالخصوص یورپی یونین کی بھی غیراعلانیہ حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو ایک خود مختار حکومت تشکیل دینے کی اجازت دے اور عالمی برادری کو ساتھ ملاکر فلسطینی ریاست کی جغرافیائی حدو د کا تعین کرے‘‘۔
قبلہ اول کو تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازش
ماضی میں یونے والی چھ روزہ عرب، اسرائیل جنگ میں صہیونی ریاست نے پورے بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے پرفوجی طاقت کے بل بوتے پرجائز تسلط جمالیا۔ اس طرح فلسطین کے قریباً تمام مقدس مقامات اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔ انتہا پسندیہودیوں کا یہ ایک دیرینہ خواب تھا کیونکہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی سازش کے ساتھ فلسطین کے تمام اہم مقدس مقامات کویہودیانے کی مکروہ منصوبہ بندی کررہے تھے۔
اپنے اس مذموم مقصد کی تکمیل کی خاطر شرپسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ اور مغربی کنارے میں مسجد ابراہیمی کو شورش کے ذریعے یہودی معابد میں بدلنے کی سازشیں شروع کردیں۔ مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی اور مسجد ابراہیمی کی مسلمانوں اور یہودیوں میں مکانی اور زمانی اعتبار سے تقسیم انہی سازشوں کا تسلسل ہیں۔ اب تک یہودی الخلیل شہرمیں جامع مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور اب یہ تجربہ مسجد اقصیٰ کے بارے میں بھی دہرانا چاہتے ہیں۔
چونکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اس کے ساتھ اس دور فسوں کار کے گئے گزرے مسلمانوں کو بھی کسی نہ کسی شکل میں عقیدت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بیت المقدس پرقبضہ کرنے کے باوجود قبلہ اول کو یہودیوں کی ملکیت قرار دینے کی کسی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پچھلے چند ہفتوں سے جاری شورش کامرکز و محور بھی مسجد اقصیٰ ہی رہی۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس وقت دو آئینی بل زیرغور ہیں جن میں کنیسٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی منظوری دے۔
اگرچہ پارلیمنٹ ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرسکی لیکن عملاً پچھلے کئی سال سے یہودیوں نے قبلہ اول کو تقسیم کر رکھا ہے۔ انتہا پسند یہودی ربیوں کی معیت میں روز مرہ کی بنیاد پر علی الصباح صہیونیوں کے گروہ قبلہ اول میں داخل ہوتے ہیں اسرائیلی فوج اور پولیس انہیں فول پروف سکیورٹی مہیا کرتی ہے۔مقامی وقت کے مطابق دن گیارہ بجے تک کسی فلسطینی کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ مسجد اقصیٰ کے ساتھ داخلی دروازوں میں باب المغاربہ(مراکشی دروازہ) یہودیوں کی آمد و رفت کے لیے مختص ہے۔ اس دروازے سے فلسطینیوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں۔
دن کے پچھلے اوقات میں فلسطینی مشروط طورپر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوسکتے ہیں لیکن اسرائیلی فوج نے کے داخلے کے لیے عمر کی قید مقرر کر رکھی ہے۔ نماز جمعہ کے اجتماعات میں صرف 50 سال یا زائد عمر کے افراد کو داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ دیگر فلسطینی صہیونی فوجیوں کے ساتھ مسلسل مڈبھیڑ کے بعد باہر سڑکوں ہی پرنماز ادا کرتے ہیں۔اس لحاظ سے صہیونی حکومت نے غیراعلانیہ طوررپر مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ مسجدا قصیٰ کی دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں تقسیم ایک نہایت ہی خطرناک سازش ہے اور یہ نہ صرف فلسطین، مشرق وسطیٰ بلکہ اسلامی دنیا میں اشتعال پھیلانے کا موجب بن سکتی ہے۔
فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کا غصہ
صہیونی ریاست کے فلسطینی عوام پر غم و غصے کی ایک اور وجہ عالمی سطح پرفلسطینی ریاست کی فروغ پذیرحمایت بھی ہے۔ اگرچہ فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا ایک فائدہ فلسطینی عوام کو بھی ہورہا ہے۔ جولائی اور اگست کے دوران غزہ کی پٹی پراسرائیلی یلغار کے خلاف عالمی سطح پر جو رد عمل سامنے ا?یا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یورپی ممالک جو ماضی میں اسرائیل کے ہرناجائز اقدام پر اعلانیہ یا درپردہ حامی رہے ہیں اب وہ بھی صہیونی جارحیت پر کھل کرمخالفت کرنے لگے ہیں۔
عالمی سطح پر فلسطینیوں کی بڑھتی حمایت ا ور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے لیے جو رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے۔ اس نے صہیونی ریاست کو بوکھلاہٹ سے دوچار کرر کھا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اب یورپی ممالک کے سفیروں اور حکومتی شخصیات کو فلسطینی علاقوں کے دورے سے روکنے کی بھی کوشش کررہا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ اب عالمی برادری مسئلہ فلسطین کو مثبت انداز میں دیکھنے لگی ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق انہیں ملیں گے اور اسرائیل کو اپنی ہٹ دھرمی ترک کرنا پڑے گی۔
عبدالقیوم فہمید

عالمی معیشت پر اجارہ داری کی جنگ کون جیتے گا؟

$
0
0
اس بات میں شک نہیں رہا کہ پاکستان دنیا میں معیشت اور سیاست کے میدان میں کھیلے جانے والے ایک بڑے کھیل کا شکار ہو چکا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں اکانومی کی جنگ لڑی جا رہی ہے‘ پاکستان کی سرزمین دنیا کی اہم ترین راہداری ہے‘ اگر سرد ممالک کو یہ راہداری استعمال کرنے کا موقع مل جائے تو پوری دنیا میں نیا تجارتی کلچر معرض وجود میں آئے گا اور طاقت کا محور پھر بدل جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں امریکا اور یورپ کا کھیل محدود ہو جائے، سوشلسٹ ممالک کو ابھرنے کا موقع ملے، طاقت کا توازن بدل جائے، اس وقت امریکا اور یورپ کی جانب سے بھرپور زور لگایا جا رہا ہے کہ سرد ممالک کو افغانستان اور پاکستان کی راہداری استعمال کرنے کیا موقع نہ ملے مگر ان سازشوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہو رہا ہے۔
کیا روس کبھی بھی گرم پانیوں کے ذریعے اپنی تجارت کا دائرہ وسیع نہیں کر پائے گا؟
کیا روس کا خلائی جنگ جیتنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا؟
کیا سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں امریکا کی برتری ہمیشہ قائم رہے گی؟
کیا سو شلزم، سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں مزید شکست خوردہ ہو رہا ہے؟
کیا پاکستان کی سرزمین کے ذریعے سرد ممالک کو بین الاقوامی تجارت کا موقع کھل کر نہیں مل سکے گا؟
کیا افغانستان ہمیشہ روس اور دوسرے ممالک کی تجارت کے لئے غیر محفوظ رہے گا؟
اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ممالک کی تمام تر توجہ افغانستان اور پاکستان پر مبذول ہے کہ یہ دونوں ممالک کسی بھی صورت مستحکم نہ ہو سکیں۔ پاکستان کی اہمیت flagافغانستان کے معاملے میں بہت زیادہ ہے کہ یہاں تقریباً سات سو کلو میٹر کی سمندری حدود اور کئی بندرگاہیں ہیں جبکہ افغانستان خشکی کا راستہ ہے۔ افغانستان سے گزر کر پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے باآسانی تجارت کی جا سکتی ہے۔
امریکا، یورپ اور ان کے حامی ممالک کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر سرد ممالک کو گرم پانی کے ذریعے تجارت کا موقع مل گیا تو آئندہ برسوں میں طاقت کا توازن کس جانب جھک جائے گا، امریکا، یورپ اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی دوسرے ممالک افغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر اپنی بقاء4 کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ چین کی بڑھتی ہوئی تجارت اور ابھرتی ہوئی معیشت بھی ان کے لئے بہت بڑا خطرہ بن رہی ہے۔
ان ممالک کو چین کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات سے بھی بڑا خدشہ پیدا ہو چکا ہے، انہیں اندازہ ہے کہ سوشلسٹ ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی قربت سے سرمایہ دارانہ نظام میں دراڑ پیدا ہو جائے گی اور کسی وقت یہ نظام زمین بوس بھی ہو سکتا ہے، اس وقت سرمایہ دارانہ نظام یہودیوں کی گرفت میں ہے۔ آج امریکا کی ترقی بھی ان کے مرہون منت ہے، یہودی تاجروں نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور وہ سوشلسٹ ممالک کو محدود رکھنے اور سرد ممالک کو گرم پانی سے دور رکھنے کے لئے مکمل قوت اور صلاحیت استعمال کر رہے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس جنگ کے لئے ارض پاک کی سرزمین استعمال کی جا رہی ہے، یوں پاکستان دو نظاموں کی جنگ میں سینڈوچ بن چکاہے۔
امریکا اور یورپ نے تقریباً ایک صدی قبل ہی سوشلزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور خطرے کو محسوس کر لیا تھا خاص طور پر یہودیوں نے اس نظام کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کی ضد تھی۔ اسلام کو اس نظام سے کوئی خاص خطرہ نہ تھا کیونکہ اسلام میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ عیسائیت کو سرمایہ دارانہ نظام سے کوئی پرخاش نہیں تھی بلکہ امریکا میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ نظام جڑ پکڑ چکا تھا۔ ادھرجرمنی کے سوا یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام اپنے پنجے گاڑ رہا تھا۔ ہیگل کے نظریہ عمرانیات نے دنیا بھر کے دانشوروں اور راہنماؤں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اس زمانے میں نیا تجارتی کلچر معرض وجود میں آیا۔ روس سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں دسترس حاصل کر چکا تھا۔ روس نے جب خلا میں پہلا مصنوعی سیارہ بھیجا تو یہود و نصاریٰ نے اسے سنجیدگی سے لیا اور وہ بھی اس میدان میں کود پڑے، روس اور امریکا میں خلائی دوڑ شروع ہو گئی مگر اس دوڑ کو جیتنے کے لئے بہت بڑے سرمائے کی ضرورت تھی۔ جب خلائی کشمکش شروع ہوئی تو امریکی معیشت واقتصادیات اور ٹیکنالوجی پر چھائے ہوئے یہودیوں نے امریکا اور اس کے حلیف ممالک کے ذریعے روس کو صرف اس کی حدود یا سرد پانی تک محدود رکھنے کی حکمت عملی تیار کی۔
انہوں نے گرم پانی کا دروازہ بند رکھنے کے لئے افغانستان کا میدان چنا اور روس کو افغانستان کی راہداری استعمال کرنے سے روکنے کی حکمت عملی تیار کی۔ کانگریس اور ہندووں کے تعصب کی وجہ سے جب مسلمانوں نے اپنے لئے الگ وطن حاصل کر لیا تو امریکا اور یورپ نے مکمل حکمت عملی تیار کی کہ روس کسی بھی طریقے سے افغانستان سے گزر کر پاکستان کی بندرگاہوں کو استعمال نہ کر سکے۔
پاکستان قائم ہونے کے بعد قائداعظم کی رحلت سے سازشیوں کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے کھل کر کام کرنے کا موقع مل گیا۔ آہستہ آہستہ تمام مخلص اور زیرک راہنماو?ں کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ نااہل ، سازشی اور کرپٹ افراد کو ملک پر مسلط ہو گئے۔ ان سازشی راہنماوؤں نے صرف اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے پر توجہ دی اور عوام کی اخلاقی تربیت نظر انداز کر دی۔ پاکستان کو ناخواندہ رکھا گیا پاکستانی عوام کو لاتعداد مسائل میں الجھا کر انہیں عقل و فہم اور شعور سے کوسوں دور کر دیا گیا۔ دنیا کا سب سے اہم محل وقوع رکھنے والا پاکستان محتاج بن کر رہ گیا۔ افغان جنگ سے قبل مذہبی جماعتوں کی پرورش بھی کی گئی۔
ان جماعتوں کو اسلام سے حقیقی خطرہ سوشلزم اور کمیونزم سے ہی نظر آتا تھا، چنانچہ جب روس نے اپنی تمامتر سفارتی کوششوں کی ناکامی کے بعد طاقت کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنے کا ارادہ کیا تو یہ جماعتیں اور ان کے عسکری ونگز افغان جہاد میں روسی جارحیت کے خلاف استعمال ہونے لگے۔ امریکا اور اس کے حلیف ممالک نے ان پاکستانی مذہبی جماعتوں کے عسکری جتھوں کے ذریعے روس کو افغانستان میں شکست دی۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔ اس صورت حال میں چینی قیادت نے روسی قیادت کے ساتھ رابطے قائم کئے اور جنوبی ایشیا میں امریکا اور یورپ کی بالادستی ختم کرنے اور خطے میں سوشلسٹ بلاک کو مضبوط کرنے کے لئے بات چیت کی۔
ان ملاقاتوں میں چینی حکام نے روسی قیادت کو گرم پانی تک افغانستان اور پاکستان کے ذریعے رسائی دینے کا بھی عندیہ دیا۔ روسی قیادت اور وسط ایشیائی ریاستوں کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ چین وہ واحد ملک ہے کہ جو پاکستان سے بات منوا سکتا ہے، انہیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ چینی اثرورسوخ اور تعلقات کی وجہ سے وہ بذریعہ پاکستان گرم پانی تک تجارت کا دائرہ پھیلا سکتے ہیں، چنانچہ ایک راہداری کا تعین کیا گیا کہ جو افغانستان کے ساتھ ملنے والے وسط ایشیائی ریاستوں سے گزرتی ہوئی افغانستان اور پاکستان تک پہنچے گی۔ پھر پاکستانی بندرگاہوں بالخصوص گوادر بندرگاہ کے ذریعے وہ اپنا مال عالمی منڈی تک پہنچا سکیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی حکام نے روس اور چین کے مابین ہونے والے رابطوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا۔ جلد ہی انہیں یہ بھی احساس ہو گیا کہ کچھ وسط ایشیائی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں، ان ریاستوں کے شہری بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان آنے لگے۔ ان ریاستوں سے تجارتی سامان بھی پاکستان آنے لگا۔ افغانستان کے بڑے حصے پر ملا عمر کا تسلط قائم ہو گیا، تاجکستان نے افغانستان کے ذریعے پاکستان کو بجلی فراہم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی۔
بظاہر یہی نظر آ رہا تھا کہ کھمبوں کے ساتھ ہی پاکستان تک پہنچنے کے لئے سڑک بھی تعمیر کی جائے گی یعنی کھمبوں اور سڑک کا روٹ ایک ہی ہو گا۔ بظاہر تو اس منصوبے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، پاکستان کو بھی محض راہداری کی مد میں پندرہ ارب ڈالر سالانہ ملنے کی توقع تھی اگر وسط ایشیائی ریاستیں بھی اس راہداری سے فائدہ اٹھاتیں تو مزید پانچ ارب ڈالر حاصل ہوتے۔
لیکن ہوا یہ کہ امریکی الیکشن کے بعد نائن الیون کا واقعہ ہو گیا جس کے نتیجے میں امریکی فوج کو افغانستان میں گھسنے کا موقع مل گیا اور راہداری کا منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا۔ وسط ایشیائی ریاستوں کی پاکستان تک رسائی ختم کر دی گئی، ادھر نیٹو اور ایساف کی افواج نے بھارتی ایجنسیوں اور شہریوں کو افغانستان میں قدم جمانے کے لئے مواقع مہیا کئے۔
32nd_G8_Summit-2
روس کا گرم پانی تک پہنچنے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ یہ نائن الیون کا واقعہ دوسرے لفظوں میں امریکا کے لیے فائدہ مند ہی ثابت ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راہداری کے فوائد کے علاوہ پاکستان کو اپنی مصنوعات بین الاقوامی منڈی میں فروخت کرنے کے لئے بہت مواقع ملتے اور گوادر کے آس پاس صنعتوں کا جال بچھ جاتا۔ بلوچستان اور پاکستان میں خوشحالی کی نئی لہر پیدا ہو جاتی، گوادر کو ’’اوپن فری‘‘ بندرگاہ کا درجہ ملنے سے یہ اس خطے کا تجارتی حب بن جاتا، وسط ایشیائی ریاستوں میں موجود تیل اور گیس بھی افغانستان اور پاکستان کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ میں تقریباً آدھی قیمت میں دستیاب ہوتا‘ کہا جاتا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں نے صرف پچاس ڈالر فی بیرل تیل بیچنے کا فیصلہ کیا تھا جو موجودہ بین الاقوامی قیمت سے نصف ہے۔
سب سے زیادہ فائدہ روس اور چین کی اکانومی کو پہنچتا۔ روس کو جیسے ہی تجارت کے مواقع ملتے اور انہیں زرمبادلہ حاصل ہوتا وہ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی پر رقم خرچ کرنے کے حامل ہو جاتے۔ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں وہ آج بھی امریکا پر فوقیت حاصل کر سکتے ہیں وہ صرف سرمائے کی کمی کی وجہ سے خلائی جنگ کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواریوں کو اس امر کا بخوبی احساس ہے، انہیں یہ بھی احساس ہے کہ اگر ایک دفعہ روس کو گرم پانی تک تجارت کا موقع مل گیا تو پھر امریکا کے لئے اپنی اجارہ داری اور گرفت قائم رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگرچہ امریکا نے اب افغانستان میں اپنی دس ہزار فوج مستقل رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے ، بھارت کو بھی تھانیداری دی جا رہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان کے ذریعے روسی تجارت کا خواب ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ بھی علم ہے کہ پاکستان بھی محض مالی مشکلات کی وجہ سے بحران کا شکار ہے، اس لئے وہ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور امریکا کی تمام شرائط قبول کرنے پر مجبور ہے۔
اگر گوادر پورٹ فنکشنل ہو گئی ،گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں انڈسٹری اور کارخانے قائم ہو گئے، پاکستان نے بلوچستان میں موجود معدنیات کے خزانوں سے خود فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو پاکستان کبھی بھی آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور امریکا کی ناجائز شرائط تسلیم نہیں کرے گا۔ چنانچہ ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی قوتوں نے پاکستان میں نئے کھیل کا آغاز کر دیا۔
وطن عزیز کو غیر مستحکم رکھنے کے پلان پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے، پاکستان کی اقتصادیات اور معاشیات کو خاص دباؤ کا شکار کر دیا گیا ہے، عوام کے مختلف طبقات کے درمیان خلیج وسیع کر دی گئی ہے، مختلف طبقات کے مابین بہت زیادہ عدم توازن پیدا ہو چکا ہے، اکانومی بھی عدم توازن کا شکار ہے۔’’گریٹ گیم‘‘ شروع ہو چکی ہے، تقریباً تمام پاکستانی کسی نہ کسی طرح اس گیم کا حصہ بن چکے ہیں۔
ملک میں انتشار اور افراتفری نظر آ رہی ہے، ہر طرف بے چینی، نفسا نفسی اور بے یقینی کا دور ہے، لوگ جتھوں اور گروہوں میں بٹ چکے ہیں، ان جتھوں اور گروہوں کی اپنی ایک سوچ ہے، پاکستانی قوم کے متحد نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں اور ملک دشمن طاقتوں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں بڑی آسانی ہو رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پوری قوم آپس میں متحارب ہے، ایسے حالات میں بڑے سے بڑا لیڈر بھی ملک و قوم کے مفادات کے لئے کھل کر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ کوئی راہنما کھل کر قوم کو اصل صورتحال سے آگاہ نہیں کر سکتا کہ وہ امریکا‘ نیٹو اور ایساف ممالک کے غیض و غضب کا شکار نہیں ہوناچاہتا، ایک کمزور ملک میں کسی بھی طاقت کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔
اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ملک کے دفاع کے ذمہ دار ادارے‘ سیاسی و جمہوری قوتیں‘ دانشور‘ اہل اقتدار و اہل اختیار اور عوام مل کر اپنی منزل کا تعین کریں، اپنی پالیسیاں واضح کر دیں، پوری قوم کو اعتماد میں لے کر منزل کا اعلان کیا جائے، سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو متحد کیا جائے، اپنی ترجیحات کا تعین کیا جائے اور قوم کو واضح طور پر آگاہ کیا جائے کہ ہمارا لائحہ عمل اور منزل کیا ہو گی؟ اس وقت پوری قوم اور ملک ابہام، غیر یقینی اور غیر واضح صورتحال سے دور چار ہے، ہمیں ایک قوم کی طرح اپنے راستوں کا تعین کرنا پڑے گا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے گوشے گوشے سے مختلف صدائیں بلند ہو رہی ہیں، ملک میں انتشار و خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہو رہا ہے۔ کراچی کے حالات دگر گوں ہیں، ہر طرف لاقانونیت‘ افراتفری‘ بے چینی‘ مفاد پرستی اور لوٹ کھسوٹ ہے، ساری قوم اضطراب اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
مشہور صوفی بزرگ ابو انیس صوفی برکت علی کہا کرتے تھے کہ ’’ایک وقت آئے گا کہ دنیا کے فیصلے پاکستان کی سرزمین سے ہوں گے۔‘‘ اگر پاکستان کا محل وقوع ذہن میں رکھا جائے اور اس ملک کے وسائل اور افرادی قوت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات بالکل ایک حقیقت نظر آتی ہے۔ مگر پاکستانی عوام بہت سادہ لوح ہیں، اپنی سادگی کی وجہ سے بہت جلد دوسری قوتوں کا چارہ بن جاتے ہیں، انہیں اپنی اہمیت کا احساس نہیں ہے، اپنے آپ کو ’’کیش‘‘ کروانا نہیں آتا، جس دن قوم اپنی منزل کا تعین کر کے متحد ہو گئی، اسی دن سے طاقت کا توازن تبدیل ہونا شروع ہو جا ئے گا، ہم فیصلہ کرنے والے بن جائیں گے۔
عالمی قوتیں بھی پاکستان کی خوشنودی کی محتاج ہوں گی، مگر یہ اس وقت ممکن ہے کہ جب پاکستانی رہنما عقل و فہم اور بصیرت کا مظاہرہ کریں گے‘ دنیا کودکھانا پڑے گا کہ پاکستانی ’’آلہ کار‘‘ نہیں ’’اعلیٰ‘‘ قوم ہے۔ مگر پاکستانی راہنما اپنی انا کے اسیر ہیں وہ حالات کی نزاکت نہیں سمجھتے‘ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ ’’دو‘‘ کی لڑائی میں ہمیشہ ’’تیسرا‘‘ فائدہ اٹھاتا ہے مگر ہم اتنے نااہل ہیں کہ دو عالمی قوتوں کی لڑائی میں فائدہ کی بجائے نقصان اٹھا رہے ہیں۔
ظفر سجاد

افغانستان، پاکستان، ہر ملک کا اپنا کھیل ہے

$
0
0
پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے پریشان مولوی فضل اللہ سانحہ پشاور جیسے مزید اقدامات کی تیاریاں کررہا ہے
حب توقع ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف شدید بے یقینی اور دوطرفہ حالت جنگ کی کیفیت سے دوچار ہیں اور خدشہ ہے کہ فروری کے بعد دو طرفہ حملوں کی تعداد اور شدت میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ فریقین کے درمیان واضح لکیریں کھینچی جا چکی ہیں اور حالات ایک بڑی مگر جارحانہ جنگ یا مزاحمت کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار اور عوام سوال اٹھارہے ہیں کہ آیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ چند مہینوں کے رابطوں کے نتیجے میں کاؤنٹر ٹیررازم کی کوئی مشترکہ میکنزم پر اتفاق ہوچکا ہے یا نہیں۔ دونوں ممالک کے متعلقہ اعلیٰ حکام اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دے رہے ہیں تاہم مذکورہ میکنزم کی تفصیلات بتانے سے وہ گریزاں ہیں جبکہ بعض باخبر سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ 16 دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد نہ صرف یہ کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے ایشو پر مزید قریب آگئے ہیں بلکہ دونوں ممالک غیر اعلانیہ طور پر انٹیلی جنس شیئرنگ اور بعض مواقع پر جوائنٹ ایکشن کا عملی ’’مظاہرہ‘‘ بھی کر چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مزید کئی اقدامات بھی پائپ لائن میں ہیں۔
سانحہ پشاور (16دسمبر) کے چند گھنٹوں بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر پشاور ہی سے کابل کے لیے روانہ ہوگئے تو میڈیا کے بعض حلقوں نے دعویٰ کیا کہ وہ سانحے کے ردعمل کے لیے کابل گئے ہیں حالانکہ ان کا دورہ کابل پہلے سے طے شدہ تھا اور انہوں نے افغان حکام کے علاوہ نیٹو کے سربراہ اور بعض دیگر سے بھی ملاقاتیں کرنی تھیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد سانحہ پشاور پر ردعمل دکھانا یا فضل اللہ وغیرہ کی فوری حوالگی کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ امریکہ، نیٹو، افغانستان اور پاکستان کے درمیان کاؤنٹر ٹیررازم کے ایک فارمولے اور میکنزم کا حتمی جائزہ لینا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق یہ ملاقاتیں کافی نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اور فریقین نے نہ صرف مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق رائے کا اظہار کیا بلکہ انہوں نے 2015 کے تناظر میں خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے کی متعدد تجاویز پر بھی اتفاق کیا۔ اسی دورے کا نتیجہ تھا کہ چند روز بعد نیٹو اور افغان فوج کے سربراہان اپنے وفود کے ہمراہ پاکستان چلے آئے جہاں مزید تفصیلات طے کی گئیں اور مشترکہ حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لیا گیا۔
PAKISTAN-AFGHANISTAN-UNREST-DIPLOMACYسانحہ پشاور کے بعد افغان اور امریکی فورسز نے نہ صرف اپنی کارروائیاں تیز کیں بلکہ انہوں نے بعض اطلاعات کی بنیاد پر صوبہ کنٹر میں ان ٹھکانوں یا مراکز کو بھی نشانہ بنایا جن کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ مولوی فضل اللہ اور ان کے جنگجوو وہاں پناہ گزین ہیں۔ درجنوں افراد نشانہ بنے جبکہ بعض اطلاعات میں یہ بھی بتایا گیا کہ فضل اللہ بھی زخمی ہوگئے ہیں۔ بعض حلقوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستانی ائیرفورس بھی کارروائی میں شامل رہی تاہم افغان اور پاکستانی حکام نے اس کی واضح تردید کی کیونکہ یہ کارروائی افغان اور نیٹو کی کارروائی تھی۔
پاکستان کو شکایت رہی ہے کہ افغانستان نے آپریشن ضرب عضب کے دوران اپنی سرحد پر وہ اقدامات نہیں کیے جن کا وہ مطالبہ کررہا تھا تاہم دوسری طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان صرف ’’بیڈ طالبان‘‘ کے خلاف کارروائی کررہا ہے اس لیے اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا جارہا تاہم اشرف غنی کے دورہ پاکستان اور اس کے بعد جنرل راحیل شریف کے تفصیلی دورہ امریکہ کے بعد صورتحال میں کافی تبدیلی واقع ہوگئی اور دونوں ممالک کے درمیان اس ایشو پر عرصہ دراز کے بعد پہلی دفعہ نہ صرف یہ کہ انڈرسٹینڈنگ بڑھ گئی بلکہ یہ یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں کہ دونوں جانب کے بیڈ اور گڈ طالبان کو ممکنہ حد تک کارروائیوں کے دائرے میں لایا جائے گا۔
جنرل راحیل شریف کے اس واضح عزم کے بعد ہی امریکہ نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کا اعلان کیا کہ گڈ طالبان یا کسی بھی گروپ کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور یہ کہ کارروائی بلاامتیاز کی جائے گی۔ سب سے اہم نکتہ اس گیم کے دوران یہ رہا کہ امریکہ نے بھی اس یقین دہانی پر اظہار اعتماد کیا کیونکہ سی آئی اے اور بعض دیگر ادارے آپریشن ضرب عضب اور خیبرون کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی کرتے چلے آرہے تھے۔ اعلیٰ ترین امریکی حکام کے علاوہ امریکی میڈیا کے اہم اداروں نے بھی پہلی بار پاکستان کی پالیسی اور کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی کارروائی کے نتیجے میں نہ صرف طالبان بلکہ حقانی نیٹ ورک کی کمر بھی توڑ دی گئی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ امریکہ نے بھی پاکستانی کردار کی تعریف کی۔
سانحہ پشاور کے بعد پاکستانی ریاست بالخصوص پاکستان آرمی کے اینٹی طالبان پالیسی میں اور بھی شدت واقع ہوگئی اور چند دنوں کے اندر فاٹا اور پختونخوا کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی بڑی کارروائیاں کی گئیں جس کے نتیجے میں گڈ طالبان کو بھی کافی نقصان اٹھاناپڑا۔ کارروائیاں اتنی زیادہ اور تیز تھیں کہ عسکریت پسندوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا جبکہ دوسری طرف امریکی ڈرون نے بھی گڈ طالبان کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران جنوری کے پہلے ہفتے کے دوران شمالی وزیرستان میں ایک مشہور ازبک کمانڈر سمیت متعدد دیگر کو ہلاک کیا گیا جبکہ اس سے قبل مبینہ گڈ طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ کو بھی دسمبر کے اوائل میں دوبارہ نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس نوعیت کی کارروائیوں کو تینوں ممالک کی جائنٹ کاؤنٹر ٹیررازم ہی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ دوسری طرف افغان فورسز نے بھی اس سرحدی علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کیں۔ جہادی پاکستانی طالبان یعنی مولوی فضل اللہ وغیرہ چھپے ہوئے ہیں۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ صورتحال میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیوں میں بھی مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کو پتہ چل گیا ہے کہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان انڈرسٹینڈنگ اور کوآرڈینیشن اب عملی اقدامات کی شکل اختیار کر چکی ہے اس لیے وہ بھی جارحانہ پن پر اتر آئے ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ چند روز یا ہفتے کافی کٹھن اور پرخطر ثابت ہوں۔
باخبر ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے وزیرستان، مہمند اور خیبر کی قبائلی ایجنسیوں پر واقع اپنی سرحد پر اپنی تعداد اور مانیٹرنگ بڑھا دی ہے جس کے باعث جنگجوؤں کی نقل و حرکت بری طرح متاثر ہوگئی ہے جبکہ امریکی ڈرون کی پروازیں بھی بڑھائی گئی ہیں۔ افغانستان کے اندر بھی پاکستان کی طرح فورسز کی ٹارگٹ ایکشن میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ بعض اہم طالبان کمانڈروں کی ہلاکتوں اور گرفتاریوں کی اطلاعات بھی ہیں۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ حملہ آوروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔
شاید اسی کا ردعمل تھا کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مولوی فضل اللہ نے 6جنوری کے روز عرصہ دراز کے بعد پہلی بار ایک ویڈیو جاری کی جس میں موصوف نے پاکستانی فوج اور اس کے حامیوں کے خلاف کھلی اور جارحانہ جنگ کی دھمکی دے ڈالی اور یہ بھی کہا کہ وہ عنقریب ایک ایسی کارروائی کرنے والے کہ لوگ سانحہ پشاور کو بھی بھول جائیں گے۔ فضل اللہ نے اپنی ویڈیو میں پاکستانی فوج کو مرتد قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان عملاً اور ختم ہوچکا ہے اور یہ کہ اب اسے مرتد فوج اور امریکہ جیسی قوتیں بھی نہیں بچا سکتیں۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ اگر اسلامی قیود، حدود کا خیال نہ ہوتا تو طالبان ایسی کارروائیاں کرتے کہ فوج کے ہوش ٹھکانے آجاتے اور ان کو یہ پتہ بھی لگ جاتا کہ جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی ویڈیو میں فوج اور فوجی آپریشنز کے حامیوں کو بھی سنگین دھمکیاں دیں اور ان کو مقابلے کے لیے تیار رہنے اور نتائج بھگتنے کے انتظار کا بھی کہہ ڈالا۔ انہوں نے بعض ہمدردوں سے بھی گلہ کیا اور دھمکیاں بھی دیں۔
فضل اللہ کا انداز بیان بہت جارحانہ تھا جس سے یہ مطلب لیا گیا کہ وہ فوجی کارروائیوں کے ردعمل میں سانحہ پشاور جیسے مزید اقدامات کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس سے یہ مطلب بھی لیا گیا مکہ آپریشن اور دیگر کارروائیوں نے ان کو واقعتاً پریشان کرکے رکھ دیا ہے اور جوابی کارروائیوں کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں۔ ان کی ویڈیو ایک پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے جہاں آس پاس بڑے بڑے درخت بھی نظر آرہے ہیں جو کہ اس جانب اشارہ ہے کہ وہ پاک افغان سرحد پر پناہ گزین ہیں۔ ویڈیو کے سامنے سے صرف تین روز قبل پختونخوا کی صوبائی حکومت نے فضل اللہ اور منگل باغ سمیت 615 دیگر مطلوب ’’دہشت گردوں‘‘ کی فہرست جاری کی اور سبھی کے سروں کی قیمتیں بھی لگائیں۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدام بھی فوج کے کہنے یا دباؤ پر اٹھایا گیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ صوبائی حکومت 615 مطلوب ترین لوگوں کی فہرست رکھنے کے باوجود کارروائی سے گریزاں تھی اور اب ان کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مزید رعایت، خوف یا مصلحت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ذرائع کے مطابق دیگر کے علاوہ طالبان کے بعض بااثر حامیوں نے بھی طالبان کو نئی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ’’پیغام‘‘بھجوایا ہے کہ اب ان کے لیے بھی پہلے کی طرح انہیں پورٹ کرنا آسان نہیں رہا اور اس چیز نے بھی طالبان کو پریشان اور تنہا کر دیا ہے۔ طالبان کے بعض حامیوں کو بھی فوج نے ’’سخت اشارے‘‘ دے رکھے ہیں۔ اس لیے کافی عرصہ سے وہ بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔
عسکری اور سفارتی حلقوں کے مطابق جان کیری کا دورہ اسلام آباد (14جنوری)انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان پر امریکہ کا اعتماد بڑھ چکا ہے اور نئی صورتحال کے تناظر میں امریکہ بھی پاکستان اور افغانستان کو مزید قریب لانے کا خواہاں ہے۔ دوسری طرف طالبان وغیرہ کی علاقائی اور عالمی رابطوں اور صف بندی کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں۔
ادھر پاکستان انسٹیٹیوٹ فارسپیس سٹیڈیز (PIPS) کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ میں اعداد و شمار کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ سال 2013ء کے مقابلے میں سال 2014 کے دوران پاکستان میں خودکش حملوں سمیت دوسری کارروائیوں کی تعداد اور ہلاکتوں میں کافی کمی آئی اور پہلے والی صورتحال برقرار نہیں رہی تاہم رپورٹ کے مطابق سال 2014 کے دوران کرائے گئے حملوں میں بھی زیادہ نقصان صوبہ پختونخوا کو اٹھانا پڑا اور تعداد کے لحاظ سے یہ صوبہ سرفہرست رہا۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کی راہ میں اب بھی گڈ اور بیڈ طالبان کے دو طرفہ فارمولے اور بلیم گیم، ڈبل گیم کے مظاہر سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جبکہ بعض کے خیال میں علاقائی اور عالمی قوتوں کی پراکسی وارز بھی اس کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ اگر پڑوسی متاثرہ ممالک اور عالمی قوتیں ان رویوں، پالیسیوں اور عوامل سے گریز کرکے ایک مشترکہ پلان پر عمل پیرا ہوجائیں تو قوی امکان ہے کہ صورتحال کنٹرول ہوجائے گی اور مزید حملوں اور سانحات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوجائے گی۔
عقیل یوسف زئی

حوثی ایک نئی طاقت، نئی بغاوت یا نیا انقلاب

$
0
0
’’حوثی‘‘ ایک نئی طاقت ، ایک نئی بغاوت یا ایک نیا انقلاب۔ ایک ایسا نام، جس کے سبب عالم اسلام میں ایک خونی جنگ چھڑ سکتی ہے جس نے بڑی خاموشی کے ساتھ یمن میں خود کو منظم کیا، متحد کیا، لشکر کی شکل دی، یلغار کی اور یمن کے نقشہ کو بدل دیا۔ شمالی یمن کی مذہبی اقلیت نے مسلح جدوجہد میں سب سے پہلے اپنے لیڈر کو گنوا دیا تھا، جب حوثی تحریک چند ماہ کی تھی۔ مگر اس کے باوجود حوثی تحریک نے دم نہیں توڑا، بلکہ اس نے آہستہ آہستہ مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کی اور پھر ایران کی پشت پناہی نے ’’حوثی‘‘ جنگجوؤں کو مزید شیربنا دیا، جو یمن کی بدعنوان حکومت کے خلاف بغاوت کا پرچم لہرانے کے بعد صرف آگے ہی بڑھتے گئے، جبکہ انقلاب یاسیمن کے بعد جب علی عبداللہ صالح کا تختہ پلٹا تو اس کے بعد سیاسی اتھل پتھل اور افراتفری نے حوثی جنگجوؤں کو بھی پیرپھیلانے کا موقع دیا، جواب سعودی عرب کے لیے یمن میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ جس کے سبب سعودی عرب نے یمن پردھاوا بول دیا ہے۔ دراصل یمن میں انشاراللہ کو حوثی کے نام سے جانا جاتا ہے ، جوکہ یمن کی مذہبی اقلیت ہے۔ انصاراللہ دراصل زیدی برادری ہے، جس نے 2004ء کی بغاوت کے بعد ’’حوثی‘‘ کے نام سے شہرت پائی تھی، جب حسین بدرالدین الحوثی نامی لیڈر نے یمن میں بغاوتکا پرچم لہرایا تھا، انہیں ستمبر 2004ء میں یمن کی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، مگر زیدی برادری ’’حوثی‘‘ جنگجویت کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے اور پچھلے سال حوثی شیعہ جنگجوؤں نے شمالی یمن پر قبضہ کرلیا۔ 2004ء کے بعد ایران نے حوثی جنگجوؤں کی پشت پناہی شروع کردی تھی۔ جس کے تحت حوثی جنگجوؤں کو تربیت حاصل ہوئی اور ہتھیار ملے۔ حوثی برادری نے دراصل سب سے پہلے دینی مہم شروع کی تھی اور امن اور اتحاد کا نعرہ بلند کیا تھا اس کا مقصد زیدی برادری کو منظم کرنا تھا۔ اس مہم کے تحت یمن میں نئے اسکول تعمیر کیے گئے اور ثقافتی اداروں کی تشکیل کی گئی۔ 1994ء میں خصوصی کیمپ میں تقریباً 15 تا 20افراد نے شرکت کی تھی۔ 2003ء میں جب امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو زیدی برادری نے صنعاء کی صالح مسجد میں نماز جمعہ کے بعد امریکا اور اسرائیل کے خلاف نعرے بلند کیے تھے۔
جس کے سبب حوثی برادری اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کا آغاز ہوا ۔ حکومت نے تقریباً 800طلباء کو امریکا مخالف مظاہروں کے سبب گرفتار کیا۔ 2004ء میں اس وقت کے صدر علی عبداللہ صالح نے حسین الحوثی کو مذاکرات کے لیے صنعاء مدعو کیا تھا، مگر انہوں نے دعوت ٹھکرا دی اور حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ صدر عبداللہ صالح نے فوج کو حکم دیا کہ حسین الحوثی کو گرفتار کر لیا جائے 10 ستمبر 2004 کو حسین الحوثی کو فوج نے گولی مار دی، مگر حوثی تحریک جاری رہی، 2010ء میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو حوثی جدوجہد تھم گئی تھی۔ 2011ء میں جب یمن میں انقلاب یاسمین نے دستک دی، تو حوثی بھی میدان میں اتر آء۔ انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس میں شرکت کی تھی، مگر حوثی برادری نے گلف کو آپریشن کونسل کے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس کے تحت صدر عبداللہ صالح کو معافی دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جوں ہی اس قرارداد پر ہنگامہ شروع ہوا ، حوثی جنگجوؤں نے ایک بڑے خطہ پر قبضہ کر لیا جن میں صدا اور الجاز کے شہر شامل تھے، پھر آہستہ آہستہ حوثی جنگجوؤں نے صنعاء کا رخ کیا۔ شمالی یمن میں حوثی جنگجوؤں کی آمد نے یمن میں تناؤ پیدا کر دیا۔ 21 ستمبر 2014ء کو حوثی جنگجوؤں نے صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ تمام سرکاری عمارتوں اور ریڈیو پر حوثی جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول کر لیا۔ اس کے بعد حوثی جنگجوؤں نے 20 جنوری 2015ء کو صدارتی محل پر قبضہ کیا حالانکہ اس وقت صدر منصوری ہادی صدارتی محل میں موجد تھے، مگر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ ان کو صنعاء سے باہر کا راستہ دے دیا گیا جو عدن چلے گئے تھے۔ 6 فروری کو حوثی جنگجوؤں نے یمن پر قبضہ کرنے کیس ا تھ جنوبی یمن کے عدن کا رخ کیا۔ صنعاء میں حوثی جنگجوؤں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا اور پھر ریوولوشزی کمیٹی کو اقتدار سونب دیا۔ 20 مارچ 2015ء کو صنعاء کی البدر (حوثی) مسجد میں انسانی بم دھماکے ہوئے، جن میں 150 افراد مارے گئے جو کہ یمن میں داعش کی آہٹ تھی یا القاعدہ کا انتقام، جس کے ساتھ مسلکی تشدد کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ یمن کی تاریخ میں سب سے خوفناک دہشت گردانہ حملہ تھا، جس میں حوثی مسجد میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ 22 مارچ کو حوثی لیڈر عبدالملک الحوثی نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل دہشت گردوں کے پشت پناہی کر رہے ہیں اور عرب ممالک پر یمن میں بدامنی پھیلانے کا الزام لگایا۔ جب 27 مارچ کو حوثی جنگجوؤں نے سنی اکثریتی علاقوں کا رخ کیا تو سعودی عرب نے بحرین،قطر، کویت ، متحدہ عرب امارات ، مصر مراتش اور سوڈان کے ساتھ یمن پر حملہ کر دیا۔ اب یمن ایک بڑی جنگ کا میدان ہے حوثی برادری نے اس بات کو کھلے عام تسلیم کیا تھا کہ ایران کا ان پر بہت گہرا اثر ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حوثی جنگجوؤں کا انداز، مزاج اور حکمت لبنان کے گوریلا گروپ حزب اللہ کی طرح ہے، دونوں گروپ مذہبی بنیاد پر ہیں اور دونوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیدی برادری مذہبی امور اور رسموں میں سنیوں سے یکسانیت رکھتی ہے۔ اب حوثی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب کی وہابی تحریک کے خلاف ہیں اور یمن میں اس کو پھیلنے نہیں دیں گے۔ حوثی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ یمن میں حکومت نے ہمیشہ امتیاز برتا ہے اور منظم طور پر نسل کشی کرنے کی کوشش کی ہے۔ صنعاء پر قبضہ سے قبل حوثی جنگجوؤں پر سعودی عرب یہ الزام عائد کرتا تھا کہ وہ ایران کی پشت پناہی کے سبب یمن میں بدامنی پیدا کر رہے ہیں،لیکن حوثی جنگجوؤں کا الزام یہ ہے کہ یمن کی حکومت شیعہ مخالف طاقتوں کے اشارے پر انہیں نشانہ بنا رہی ہے۔ القاعدہ کو بھی اسی لیے ڈھیل دی گئی کو حوثی برادری کو نشانہ بنا سکے۔ بہر حال جب 2004ء میں حوثی تحریک نے جنم لیا تھا، تویمن کے صدر عبداللہ صالح نے ایران پر حکومت کے خلاف بغاوت کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن لیڈر ان اس وقت بھی اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ نہ تو صدر کے خلاف ہیں اور نہ ہی نظام کے خلاف ۔ حوثی تو صرف اپنے فرضہ کو لاحق خطرات کے خلاف متحدہوئے ہیں۔
burning-truck_2339739kفروری 2015ء میں ایک امریکی میگزین نے حوثی جنگجوؤں پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھی کہ حوثی دراصل حکومت کی بدعنوانیوں ، مہنگائی، بے روزگاری اور جانبداری کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ایک حوثی لیڈر حسین البخاری کے مطابق ’’حوثی دراصل ایک جمہوری نظام کے حق میں ہیں۔ ایک ایسا سیاسی نظام جس میں خواتین کی بھی نمایاں حصہ داری ہو۔ کسی عالم یا مولوی کی قیادت والی حکومت منظور ہی نہیں۔ خواہ وہ ایران کی طرز پر کیوں نہ ہو۔‘‘ یمن میں ایسا مذہبی نظام ممکن نہیں، کیونکہ ملک میں سنیوں کی تعداد زیدی برادری ہے۔ پچھلے سال ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر علی اکبر ولایتی نے کہا تھا کہ ’’ہم کو امید ہے کہ انصار اللہ یمن میں وہی کردار نبھائیں گے جو لبنان میں حزب اللہ کا ہے۔‘‘ صنعاء پر قبضہ کرنے کے بعد ہی حوثی جنگجوؤں کی طاقت کا اندازہ ہو سکا اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے بجلی کی طرح یمن پر حملہ کر دیا، تاکہ حوثی جنگجوؤں کو جنوبی یمن پر پرچم لہرانے سے روکا جاسکے، جو صنعاء پر قابض ہونے کے بعد کروڑوں ڈالر کی مالیت کے امریکی ہتھیاروں کو حاصل کر چکے ہیں۔ یہ امریکی ہتھیار یمن کو انقلاب یاسمین سے قبل 2010ء یمن کی حکومت کو سپلائی کئے تھے۔ اب حوثی جنگجوؤں کا نشانہ عدن پر ہے ، مگر سعودی عرب کی زبردست بمباری نے جنگجوؤں کی پیش قدمی کو سست ضرور کر دیا ہے، لیکن شمالی یمن کو حوثی جنگجوؤں سے آزاد کرانا اب بھی مشکل ہے۔
انٹرنیشنل ڈیسک

روہنگیا کے مسلمان ، جن کا کوئی ملک نہیں

$
0
0
ویسے تو روہنگیا مسلمانوں اور برما کی ریاست رکھائین کے بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان جھگڑا ڈیڑھ صدی پر محیط ہے، جب انگریز کے دور میں بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں سے بڑی تعداد میں محنت مزدوری کرنے والے غریب مسلمان فصلوں میں کام کرنے کے لیے برما کی ریاست رکھائین میں آباد ہونا شروع ہوئے، لیکن پچھلے چار پانچ عشروں سے برما میں قائم فوجی آمریت نے اس جھگڑے کو ایک بہت بڑے بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔
کئی ہزار سالوں سے برما کے لوگوں کا اکثریتی مذہب بدھ مت رہا ہے، اور آج بھی وہاں کی 80 فیصد آبادی کا مذہب بدھ مت ہے۔ برما کی ریاست رکھائین جسے اراکان بھی کہتے ہیں، کے بارے میں ڈاکٹر یاک لیڈر، جو اقوامِ متحدہ کی برما کوآرڈینیٹر کے مشیر ہیں، کا کہنا ہے کہ اوائل میں مسلمان اس ریاست میں سولہویں صدی عیسوی میں آباد ہونا شروع ہوئے، البتہ اس بات پر اختلافِ رائے موجود ہے کہ وہاں آباد ہونے والے مسلمانوں کہاں سے آئے تھے۔
روہنگیا تحریک سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا وہاں کے مقامی لوگ تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب تاجروں کی اولاد ہیں جو کچھ صدیوں پہلے یہاں آباد ہو گئے تھے۔ جبکہ برما کی فوجی حکومت کی قیادت میں برما کا سرکاری موقف ہے کہ روہنگیا مسلمان بنگالی آباد کار ہیں جو انگریز دور میں وہاں آباد ہوئے تھے، اس لیے انہیں واپس چلے جانا چاہیے۔
روہنگیا مسلمانوں کا پاکستان کے ساتھ بھی تھوڑا بہت تعلق بنتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ روہنگیا مسلمان پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے، اور شاید برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حالیہ ظلم و ستم کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہو۔ یہ اس دور کی بات ہے جب پورے برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی، اور برما بھی برٹش راج کی عملداری میں تھا۔ چونکہ سارے علاقے انگریز کے زیر اثر تھے، اور نئے ملک وجود میں نہیں آئے تھے، اس لیے نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں تھی۔
برما کی ریاست رکھائین چونکہ سابقہ مشرقی پاکستان کی سرحد کے ساتھ ملحقہ تھی، اس لیے جب برصغیر میں پاکستان کی تحریک چل رہی تھی، تو روہنگیا مسلمانوں نے بھی ایک علیحدگی پسند تحریک کا آغاز کیا تاکہ رکھائین کی ریاست کو مشرقی پاکستان کے ساتھ شامل کروایا جا سکے۔ ان کے ایک وفد نے قائد اعظم کے ساتھ بھی ملاقات کی اور اراکان کی ریاست کو مشرقی پاکستان میں شامل کروانے کے مطالبے کو پاکستان کی تحریک کا حصہ بنانے کی درخواست کی۔
انہوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے کے لیے اراکان مسلم لیگ کی بنیاد بھی رکھی، لیکن روہنگیا مسلمانوں کا پاکستان میں شامل ہونے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
روہنگیا مسلمان پاکستان میں شامل تو نہ ہو سکے لیکن برما کی اشرافیہ نے ان کی اس کوشش کو شاید کبھی معاف نہیں کیا۔ اس سے پہلے دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی روہنگیا مسلمانوں اور مقامی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان خونی تصادم ہو چکا تھا۔
burmaروہنگیا اور مقامی بدھ آبادی کے درمیان چپقلش کی اصل وجوہات میں معاشی مسابقت کا پہلو بہت زیادہ اہم نہیں ہے، بھلے ہی روہنگیا قوم کے لوگ زیادہ تر غریب اور کم پڑھے لکھے ہیں جو اراکان ریاست کے مضافاتی علاقوں میں آباد ہیں۔ چپقلش کی اصل وجہ مذہبی ہے۔
روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بہرحال پورے خطے میں جاری مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تصادموں سے الگ ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور بین الاقوامی میڈیا اب تقریباً متفقہ طور پرروہنگیا مسلمانوں کو دنیا بھر میں بربریت کی سب سے زیادہ شکار ہونے والی اقلیتوں میں شمار کر رہے ہیں۔ اگرچہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد صرف 7 سے 8 لاکھ تک ہے، لیکن برما کی حکومت اور اشرافیہ کسی طور پر انہیں تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
اس حالیہ بحران کے بیج برما میں قائم ہونے والی 1962 کی فوجی آمریت کے بوئے ہوئے ہیں۔ جنرل نے وِن نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن شروع کیے، جو 1982 میں برمی قانونِ شہریت کے نفاذ پر منتج ہوئے، جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت سے محروم کر دیا گیا اور انہیں بنگالی مہاجر قرار دے دیا گیا۔
اس وقت سے لاکھوں روہنگیا اپنے ہی ملک میں بے گھر اور بے ریاست ہونے پر مجبور ہو گئے، یعنی وہ دنیا کی ان بدقسمت اقلیتوں میں شامل ہو گئے جو اس کرہ ارض پر تو رہتے ہیں، لیکن قانونی طور پر کسی بھی ملک کے شہری نہیں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2004 کی رپورٹ کے مطابق برما میں روہنگیا مسلمان مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں، اور ان کی نقل و حرکت، تعلیم، اور شادیوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔
اسی طرح ان پر مختلف قسم کے ظالمانہ ٹیکس، زمین کی ضبطگی، اور گھروں کو مسمار کرنے جیسے مظالم بھی ڈھائے جا رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے، غیر انسانی سلوک کے خاتمے کے لیے کوششیں کر چکی ہے، اور حال ہی میں امریکہ کی طرف سے بھی مطالبہ آیا ہے کہ برما روہنگیا مسلمانوں کو شہریت کے بنیادی حق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ لیکن برما کی فوجی حکومت انہیں کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نظر نہیں آتی۔
برما میں رائج نصف صدی پر محیط فوجی آمریت کے جرائم کے لمبی فہرست میں ریاستی سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔ 2012 میں رکھائین ریاست میں Wirathu on timesجو ہنگامے پھوٹے، اس کے نتیجے میں 70، 80 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بہت سے زخمی ہوئے، اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اگرچہ ان میں زیادہ تر ہلاک ہونے والے، زخمی ہونے والے، اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے روہنگیا مسلمان تھے، لیکن برما کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ تشدد دونوں اطراف سے کیا گیا۔
ماضی کے ان سارے واقعات نے 2015 کے حالیہ بحران کو جنم دیا، جب ہزاروں روہنگیا مسلمان عشروں سے جاری ظلم سے بچنے کے لیے اسمگلروں کی کشتیوں میں سوار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سے پہلے بھی روہنگیا مسلمان برما میں ظلم سے بچنے کے لیے دوسرے ملکوں میں ہجرت کر چکے ہیں، جن میں سے بہت سے کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 2 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ لیکن پچھلے چند ماہ سے جاری بحران میں نیا موڑ یہ آیا ہے کہ ہزاروں روہنگیا مسلمان سمندر میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں محصور ہوئے پڑے ہیں، کیونکہ کوئی بھی ہمسایہ ملک ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بہت سے اس دوران ہلاک ہو چکے ہیں، چند خوش قسمت کامیابی سے تیر کر یا کسی طرح ساحلوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن زیادہ تر کئی مہینوں سے کھلے سمندر میں کشتیوں میں بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں۔ ہمسایہ ممالک نے اپنے ساحلوں کی نگرانی بڑھا دی ہے تاکہ کوئی کشتی ساحل تک نہ پہنچ سکے، البتہ وہ ممالک انہیں تھوڑا بہت پانی اور خوراک مہیا کر رہے ہیں۔
حسبِ روایت اسلامی ممالک اور اسلامی ممالک کی تنظیم اس سارے بحران پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جب پوری دنیا کے میڈیا پر اس بحران پر شور مچ رہا ہے اور کئی مہینوں سے یہ بحران جاری ہے، اسلامی ممالک کی تنظیم ابھی تک روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کر سکی۔ 57 مسلم ممالک پر مشتمل یہ تنظیم چند ہزار روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ نہ تو یہ تنظیم برما کی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی ان چند ہزار روہنگیا مسلمانوں کو کوئی مسلم ملک قبول کرنے کو تیار ہے۔
کیا یہ سوال ذہن میں نہیں ابھرتا کہ اس طرح کی تنظیم کا آخر کیا فائدہ ہے جو عملی طور پر مسلمانوں کا کوئی مسئلہ ہی حل نہ کر سکے؟ اسی طرح امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوکی جنہیں برما کی فوجی آمریت کے ہاتھوں حالیہ تاریخ کی سب سے طویل ترین سیاسی قید کی بنا پر دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے برما کے مظالم پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ البتہ دلائی لامہ نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں کریں۔
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کو روکنے کے لیے بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ انہی کی کوششوں سے یہ مسئلہ ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ لیکن چونکہ روہنگیا مسلمانوں کے اوپر زمین تنگ ہونے کی بڑی وجہ ان کا مذہب ہے، اس لیے مسلم ممالک پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی مدد کے لیے زبانی جمع خرچ اور بے فائدہ مظاہروں اور نعرہ بازی سے بڑھ کر بھی کچھ کریں۔
یا تو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ ملکر برما میں ان کو شہریت کے حقوق سمیت دیگر انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کریں، یا پھر برما میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کی مسلم ممالک میں آباد کاری کا انتظام کیا جائے۔ کیا 7 سے 8 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے لیے 57 مسلم ممالک کی زمین اتنی ہی ناکافی ہے؟

عدنان رندھاوا

قرآن حفظ کریں،کنیزلیں،داعش کا اعلان

$
0
0
رمضان کے مقدس مہینے کے احترام میں انتہا پسند جہادی تنظیم داعش نے قرآن حفظ کرنے کے مقابلے کا علان کیا ہے جس میں انعامات کے طور پر باندیاں دینے کا اعلان کیا ہے۔
روایتی طور پر رمضان میں قرآن حفظ کرنے کے مقابلے دنیا بھر میں منعقد کئے جاتے ہیں۔
داعش نے شام کے صوبے البرکہ میں اس مقابلے کے انعقاد کا اعلان حسبِ ذیل نوٹس کے ذریعے کیا ہے۔ اعلان میں اس مقابلے کیلئے منتخب کی گئی قرآن کی سورتوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ داعش نے ان سورتوں کا انتخاب کیا ہے جن میں جنگ و جدل سے متعلق آیات ملتی ہیں۔ جہادی رمضان کو جہاد کیلئے بھی بہترین مہینہ سمجھتے ہیں۔ داعش نے گزشتہ برس،یکم رمضان کو خلافت کا اعلان کیا تھا۔
صوبہ البرکہ
دولت اسلامیہ عراق وشام
اعلان
صوبہ البرکہ کے تمام شعبوں میں موجود دولت اسلامیہ کے سپاہیوں کیلئے:
ہم آپ کو رمضان کے رحمتوں بھرے مہینے کی مبارکباد دیتے ہیں۔ خداہم سب کے روزے قبول کرےisis!
خدا ہم سب کو آگ کے عذاب سے بچائے!
شعبہ دعوہ،مساجد میں اللہ کی کتاب سے کچھ سورتیں یاد کرنے کے ایک مقابلے کے آغاز کا اعلان کرتا ہے۔
یہ سورتیں حسبِ ذیل ہیں:
1۔ سورہ الانفعال 2۔ سورہ التوبہ3۔ سورہ محمد 4۔ سورہ الفاتحہ
یہ مقابلہ یکم رمضان1436ھ سے 20رمضان تک جاری رہے گا۔
جو کوئی اس مقابلے میں شرکت کرنا چاہتا ہے، اسے خود کو حسبِ ذیل مساجد کے آئمہ کے پاس رجسٹر کروانا ہوگا:
1۔ مسجد ابوبکر صدیق 2۔ مسجد اسامہ بن لادن3۔ مسجد ابو مصعب الزرقاوی 4۔ مسجد التقویٰ
انشااللہ، مقابلہ کرنے والوں کا 21 رمضان سے 27 رمضان کی تاریخوں کے درمیان امتحان لیا جائے گا۔ انشااللہ، عیدالفطرکے روز انعامات تقسیم کئے جائیں گے۔
اس مقابلے کے انعامات یہ ہیں:
پہلا انعام: 1 کنیز دوسراانعام: 1 کنیز
تیسراانعام: 1کنیز چوتھا انعام: 100000 شامی لِرا (462ڈالر)
پانچواں انعام: 90000شامی لِرا چھٹا انعام: 80000شامی لِرا
ساتواں انعام: 70000 شامی لِرا آٹھواں انعام: 60000شامی لِرا
نواں انعام: 50000شامی لِرا دسواں انعام: 50000 شامی لِرا
یاد رہے کہ داعش نے ہزاروں خواتین کو اغوا کرنے کے بعد منڈیوں میں فروخت کرکے جنسی غلامی پر مجبور کیا۔ داعش سے بچ جانے والوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا ہے کہ وہ کم از کم 150 ایسی یزیدی لڑکیوں کو جانتی ہے جنہوں نے داشتہ کی قبیح زندگی کو برداشت کرنے پر خودکشی کرنے کو ترجیح دی۔ایک نرس نے بتایا، ’’خودکشی کرنے والی کچھ لڑکیوں کی لاشیں کتوں کے آگے ڈال دی گئی تھیں۔‘‘

فیکٹ رپورٹ

چین،مسلمان شراب،سگریٹ فروخت کرنے پرمجبور

$
0
0
کبھی علحدگی پسندی تو کبھی دہشت گردی کے الزام میں مشرقی ترکستان (زنجیانگ) کے مسلمانوں پر چین کی دہریہ حکومت کے ظلم و ستم کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ ان مسلمانوں کو خوف و دہشت میں ہمیشہ مبتلا رکھنے کی غرض سے چینی حکومت کبھی ان کو رمضان کے روزے رکھنے سے روکتی ہے کبھی پر دے پر پابندی لگاتی ہے تو کبھی نوجوانوں کو مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی ہے ۔ معمولی واقعات پر یہاں کے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کے سنگین الزامات لگانا عام بات ہے ۔ کئی ملزمین کو موت کی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود یہاں بسنے والے بدھ مت کے پیرو کاروں کو جنہیں کو مقامی زبان میں ہن کہا جاتا ہے مراعات اور آزادیاں دی جاتی ہیں اور مسلمانوں سے کمتر درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ریاست کی سرحد پڑوسی ملک پاکستان سے ملتی ہے اور یہ ملک چین کو اس ظلم و ستم سے روکنے کے بجائے اس کے صدر کی آمد پر سرخ قالین استقبال کرتا ہے کروڑ روپئے کے معاہدے کرتا ہے ۔ چین کو اپنی سرحدوں‘ سڑکیں تعمیر کرنے‘ بندرگاہیں استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے ۔
حالیہ ایک امریکی ریڈیو نے اطلاع دی تھی کہ چین نے مقامی مسلمانوں پر ظلم و ستم کی حد کردی ہے مذہب سے دور رکھنے کیلئے چینی مسلم دوکانداروں کو جو زنجیانگ میں رہتے ہیں شراب اور سگریٹ کی فروخت کو لازمی قرار دیا گیاMUSLIM UIGHURS ہے۔ یہی نہیں فوج نے ان دوکانداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ شراب کی بوتلیں اور سگریٹ کے پیاکٹ اس طرح اپنی دوکانوں میں سجائیں کہ وہ دور سے آسانی سے نظر آئیں ۔ ریڈیو فری ایشیاء نے یہ اطلاع دی ہے جس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو دولت اسلامی کی طرف راغب ہونے سے روکنا ہے ۔ اس حکم کی اجرائی کے بعد کئی مسلم دوکاندار شراب فروخت کرنے پر مجبور ہیں ۔ نئے حکم میں ہوٹل مالکوں اور شاپنگ مالس سے کہا گیا ہے کہ وہ کم سے کم 5 اقسام کی شراب فروخت کریں بصورت دیگر نہ صرف ان کو گرفتار کرلیا جائے گا بلکہ ان کی دوکانوں کو بھی مہر بند کردیا جائے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ حکم 2012 میں ہی جاری کیا گیا تھا لیکن مقامی مسلمانوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اب اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کرنا شروع کردیاگیا ہے۔
زنجیانگ یغور نسل کے مسلمانوں کا آبائی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ کئی برسوں سے عدم استحکام کا شکار ہے ۔ چینی حکومت پڑوسی وسطی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور افغانستان میں اسلامی تحریکوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کے مسلمانوں پر حد درجہ سختیاں کررہی ہے ۔ زنجیانگ کی سرحدیں پاکستان‘افغانستان کے علاوہ قازقستان اور کرغیزستان سے بھی ملتی ہیں ۔ یہاں چینی حکومت کے اس ظلم و ستم کی وجہ سے کچھ لوگ اس کو ایک خود مختار علاقہ بنانے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس مہم کو بہانہ بناکر چینی حکومت نے مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی ہے زنجیانگ کے کسی بھی شہر میں بس میں 5 سے زیادہ مسلمانوں کو سفر کی اجازت نہیں ہے ۔ خواتین کے نقاب یا اسکاف پر پابندی ہے اور کوئی مسلم خاتون جسم کو مکمل ڈھکنے والا لباس نہیں پہن سکتی ۔ داڑھی لمبی رکھنے پر مردوں پر نہ صرف بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے بلکہ ایسے افراد کو عوامی مقامات پر جانے یا بس میں سوار ہونے کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی مسلمان اپنے لباس پر چاند یا ستارہ کا نشانہ نہیں لگا سکتا ۔ قابل غور بات ہے کہ ایک طرف حکومت مسلمانوں پر ایسی پابندیاں لگا کر ان کو ہراساں کرتی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی جاسوسی کرنے والوں کو انعامات سے نوازتی ہے ۔ لمبی داڑھی والے مسلمان کے بارے میں پولیس کو اطلاع دینے پر 2 ہزار ین کی رقم بطور انعام دی جاتی ہے اس لئے مقامی اقلیتی برادری ہن کے لوگ مسلمانوں کی ٹوہ میں رہتے ہیں۔ اور انعامات کی لالچ میں ان کی جھوٹی سچی مخبری کرتے ہیں۔ پولیس ان مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کو کسی صفائی کا موقع دےئے بغیر گرفتار کر کے لے جاتی ہے ۔ گذشتہ 8 تا 10 برسوں کے دوران اس ریاست میں 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک طرف چین اپنے مسلم باشندوں پر اس طرح کے مظالم ڈھا رہا ہے دوسری طرف پاکستان اس کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے چین کے قائدین کا والہانہ استقبال کررہا ہے حال ہی میں صدر چین زی جن پنگ نے اسلام آباد کا دورہ کیا تو حکومت نے نہ صرف ان کو اعلی ترین سیویلین اعزاز سے نوازا بلکہ ان کی میزبانی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ افغانستان میں طالبان تحریک کے دم توڑجانے کے بعد امریکہ اس علاقہ کا تخلیہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ پاکستان کو ایک مضبوط دوست کی ضرورت ہے جو چین کی شکل میں اس کے پاس موجود ہے ۔ چین سے دوستی کی خاطر پاکستان نے گودار جیسی اہم بندرگاہ اس کے حوالے کردی اب چین کو تیل اپنے ملک تک پہنچانے میں انتہائی آسانی ہوگئی ہے ۔ اس سہولت کی خاطر چین پاکستان کو سڑک کے ذریعہ مربوط کررہا ہے اور یہ سڑک بھی زنجیانگ کی سرحد سے گذرتی ہے ۔ اس پراجکٹ کیلئے چین پاکستان میں 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے جبکہ اس بندرگاہ اور سڑک کے ذریعہ تیل منتقل کرنے میں چین کو 20 ارب ڈالر کا فائدہ ہورہا ہے جبکہ پاکستان کو بھی سالانہ 5 ارب ڈالر کا فائدہ ہورہا ہے ۔ اسی لئے خود پاکستانی ذرائع ابلاغ زنجیانگ میں ہونے والے مظالم پر پاکستان کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ پاکستان نے چین کے کہنے پر ان علاقوں میں سرگرم مسلم انتہا پسندوں کے نام اور ان کے ٹھکانے بھی بیجنگ کے حوالے کردیتے ہیں۔
CHINA-US-ATTACKS-911-ANNIVERSARY-XINJIANG-FILESزنجیانگ جس کو ہم مشرقی ترکستان کہتے ہیں کوئی چینی علاقہ نہیں ہے بلکہ یہ چین کا مقبوضہ مسلم علاقہ ہے ۔ یہاں زمانہ قدیم سے مسلمان آباد ہیں اور وہ مسلم شناخت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو چین کو کسی صورت میں منظور نہیں ہے ۔ ان باشندوں کی زبان‘ بول چال اور تہذیب و تمدن چین سے بالکل الگ ہے ۔ اس صورتحال کیلئے صرف ایک پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانا غلط ہے ۔ تمام مسلم ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن چونکہ پاکستان کے پڑوس میں یہ سب کچھ ہورہا ہے اس لئے اس پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ چین بین الاقوامی قوانین اور حقوق انسانی کی پرواہ کئے بغیر اس ریاست کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو مٹانا چاہتا ہے جس کے خلاف مزاحمت کو وہ دہشت گردی اور علحدگی پسندی کا نام دے رہا ہے ۔ اس ریاست کی آبادی 2 کروڑ افراد پر مشتمل ہے ۔ اس علاقہ پر قبضہ کرنے کیلئے روس اور چین کے درمیان ایک عرصہ تک رسہ کشی چلتی رہی تھی بالآخر دونوں نے ترکستان کو تقسیم کرلیا مغربی ترکستان روس کے قبضہ میں اور مشرقی ترکستان چین کے قبضہ میں چلاگیا ۔ اس ریاست کا جو دارالحکومت کاشغر سے بنایا جاتا ہے کہ اس شہر کو قتیبہ بن مسلم نے فتح کیا تھا ۔ اس ریاست کا پرچم نیلے رنگ کا تھا جس پر ہلال بنا ہوا تھا ۔ اس ریاست پر 1860 میں چین قابض ہوا ۔ اس کے خلاف 1863 میں تحریک شروع کی گئی۔ یعقوب خان بادولت کی قیادت میں اس علاقہ کو ایک الگ ملک تسلیم کرلیا گیا اور انہو ں نے اس ملک کو سلطنت عثمانیہ میں ضم کردیا ۔ اس وقت ترک عثمانی حکومت کے خلیفہ سلطان عبدالعزیز خان تھے لیکن 13 برس بعد ہی چین نے دوبارہ مشرقی ترکستان پر قبضہ کرلیا ۔ 1931 میں ایک مرتبہ پھر آزادی کیلئے جدوجہد شروع ہوتی 1933 میں بڑے حصے کو آزاد کرالیا گیا لیکن چین نے روس کے تعاون سے پھر اس علاقہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس وقت سے اس علاقہ کے مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا گیاہے کہ وہ ا پنی زندگیوں کے علاوہ کسی اور بات کی فکر نہ کریں ۔ ان کو مذہب سے دور رکھنے کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں ظلم وستم کی کہانیاں بہت کم شائع ہوتی ہیں۔
Viewing all 20 articles
Browse latest View live