امریکی صدر باراک اوبامہ کا افغانستان سے ایک لاکھ امریکی فوجیوں میں سے آئندہ۱۸ مہینوں کے دوران ایک تہائی فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ حیرت انگیز ہے ۔ اپنے حتمی فیصلے کا اعلان کرتے وقت اوبامہ کو ان تمام لوگوں کے سوالوں کے جوابات دینے ہوں گے جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان سے اپنی فوجی کے انخلاء کا فیصلہ صادر کر کے کہیں بارک اوبانہ نومبر ۲۰۱۲ کے صدارتی الیکشن کیلئے عوام الناس کے درمیان جگہ تو نہیں بنانا چاہتے۔ یعنی مختصر سے وقفے کیلئے جنگ بندی کی جائے اور بعد میں یہی سلسلہ جاری رکھا جائے۔ اپنے اقتدار کے پہلے دور کے خاتمے سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں فوج کو واپس بلانا او روضاحت یہ پیش کرنا کہ ان کا سارا دھیان ملک کی ترقی کی طرف ہے اوبانہ کیلئے کامیابی کی راہیں تنگ کرتا ہے، امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج چاہے جو بھی ہوں ، اوبامہ صدر بنیں یا رپبلکن پارٹی کا کوئی ممبر کسی کے بھی لیے اس واقعہ کو دہرانا ممکن ہے۔ افغانستان کی جنگ اب ملٹری کا جھگڑبن کر رہی گئی ہے۔ واشنگٹن ، ڈی سی میں سیاسی اور مالیاتی جماعتیں اوبامہ کے اس فیصلے کے حق میں ہیں۔ یعنی اگر افغانستان میں امریکی فوج رہتی ہے تو اسے مدد فراہم کی جاتی اور طالبان کے خلاف عالمگیر جنگ کا اعلان کیا جاتاہے تو اس کے خلاف مظاہرے کیے جاتے ہیں ۔ یہ سب کون کررہا ہے ؟ یورپی لوگوں کو ان تمام چیزوں میں دلچسپی نہیں ہے ۔ روس دوبارہ افغانستان کا رخ نہیں کرے گا۔ سوپرپاور امریکہ کی مزاحمت کرتے ہوے دیگر طاقتیں جن کے پاس بڑی افواج بھی ہیں جسے چین، ہندوستان ، ترکی اب ہوشیار ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی میں ہندوستان کے سیاسی اور سماجی پروگراموں کو سایہ فراہم کرتی ہے ۔ چین کا مسئلہ ذرا مختلف ہے کیونکہ وہ اکیلا افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے اور اس کی نظریں افغانستان کے وسائل پر جمی ہوئیں ہیں۔ فوجیوں کے اس انخلاء سے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بڑی سہولتیں جیسے اینک تانبے کی کان جسیے چین کی انڈسٹری کے ذریعے شدید نقصان پہنچا تھا۔ نیٹو نے اس کی حفاظت کی۔ اوبامہ کے اس ممکنہ فیصلے کے تین مقاصد ہوسکتے ہیں جس میں تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ پچھلے کئی دنوں میں صدر بارک اوبامہ کے بیان پر تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی فوج کا افغانستان میں ہونا ضروری ہے ساتھ ہی افغانستان پر چڑھائی کیلئے پاکستان کی بھی ضرورت ہے تاکہ امریکہ افغانستان میں چھپے اپنے دشمنوں سے مقابلہ کر سکے القاعدہ کے لیڈروں کا قتل کرسکے، طالبان سے مقابلہ کر سکے اور اپنے ملک (امریکہ ) کو محفوظ بنا سکے۔ اس طرح کے تصور سے اسلام آباد کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ امریکی سسٹم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس تصور کی حمایت کرتے ہیں۔۲۰۱۰ء کی شروعات میں لندن کانفرنس کے بعد جب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء پر بات کی گئی پاکستانی جنرلوں کو خوشی حاصل ہوئی۔ آج ہو خاموش ہیں ۔ تمام چیزیں اسی طرح چل رہی ہیں لیکن کب کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ سے ملے تمام سنگل کچھ گڈ مڈ نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ اپنی فوج کو افغانستان سے واپس بلا رہے ہیں اور دوسری افغانستان کے فضائیہ شعبہ میں کثیر سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ امریکی افواج ، افغانستان میں ا پنی موجودگی کو کم کرکے پاکستان پر اچانک حملہ کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے ا مریکہ کے نائب صدر جوبیڈن اس حکمت عملی کے بارے میں اپ نے ایک بیان میں اشارہ دے چکے ہیں۔ لیکن یہ دونوں امکان ہندوستان کو راس آتے ہیں۔ جبکہ تیسرا مکان کو لے کر ہندوستان اور واشنگٹن ے درمیان فاصلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ہندوستان ، افغانستان کا غیر سرکاری ڈیویژن بننا پسند کرے گا اور اپنے شمالی حصے کی سکیورٹی چاہے گا۔ دوسری طرف جنوبی افغانستان میں پشتو اور قبائلی سی آرمی مذہب سے جڑے اپنے نظریات میں مزید شدت پیدا کرسکتی ہے۔ امریکہ فوج کے انخلاء کے اعلان کے بعد ان کی غیر موجودگی میں پشتو قوم اپنے قدم بڑھانے میں مزید تیزی لائے گی اور ایک پشتو علاقے کی بھی بنیاد ڈالی سکتی ہے۔ حقیقتی تو یہ ہے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے پیچھے کسی سیاسی سازش کے چھپے ہونے کی بو آرہی ہے۔
اشوک ملک