’’حوثی‘‘ ایک نئی طاقت ، ایک نئی بغاوت یا ایک نیا انقلاب۔ ایک ایسا نام، جس کے سبب عالم اسلام میں ایک خونی جنگ چھڑ سکتی ہے جس نے بڑی خاموشی کے ساتھ یمن میں خود کو منظم کیا، متحد کیا، لشکر کی شکل دی، یلغار کی اور یمن کے نقشہ کو بدل دیا۔ شمالی یمن کی مذہبی اقلیت نے مسلح جدوجہد میں سب سے پہلے اپنے لیڈر کو گنوا دیا تھا، جب حوثی تحریک چند ماہ کی تھی۔ مگر اس کے باوجود حوثی تحریک نے دم نہیں توڑا، بلکہ اس نے آہستہ آہستہ مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کی اور پھر ایران کی پشت پناہی نے ’’حوثی‘‘ جنگجوؤں کو مزید شیربنا دیا، جو یمن کی بدعنوان حکومت کے خلاف بغاوت کا پرچم لہرانے کے بعد صرف آگے ہی بڑھتے گئے، جبکہ انقلاب یاسیمن کے بعد جب علی عبداللہ صالح کا تختہ پلٹا تو اس کے بعد سیاسی اتھل پتھل اور افراتفری نے حوثی جنگجوؤں کو بھی پیرپھیلانے کا موقع دیا، جواب سعودی عرب کے لیے یمن میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ جس کے سبب سعودی عرب نے یمن پردھاوا بول دیا ہے۔ دراصل یمن میں انشاراللہ کو حوثی کے نام سے جانا جاتا ہے ، جوکہ یمن کی مذہبی اقلیت ہے۔ انصاراللہ دراصل زیدی برادری ہے، جس نے 2004ء کی بغاوت کے بعد ’’حوثی‘‘ کے نام سے شہرت پائی تھی، جب حسین بدرالدین الحوثی نامی لیڈر نے یمن میں بغاوتکا پرچم لہرایا تھا، انہیں ستمبر 2004ء میں یمن کی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، مگر زیدی برادری ’’حوثی‘‘ جنگجویت کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے اور پچھلے سال حوثی شیعہ جنگجوؤں نے شمالی یمن پر قبضہ کرلیا۔ 2004ء کے بعد ایران نے حوثی جنگجوؤں کی پشت پناہی شروع کردی تھی۔ جس کے تحت حوثی جنگجوؤں کو تربیت حاصل ہوئی اور ہتھیار ملے۔ حوثی برادری نے دراصل سب سے پہلے دینی مہم شروع کی تھی اور امن اور اتحاد کا نعرہ بلند کیا تھا اس کا مقصد زیدی برادری کو منظم کرنا تھا۔ اس مہم کے تحت یمن میں نئے اسکول تعمیر کیے گئے اور ثقافتی اداروں کی تشکیل کی گئی۔ 1994ء میں خصوصی کیمپ میں تقریباً 15 تا 20افراد نے شرکت کی تھی۔ 2003ء میں جب امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو زیدی برادری نے صنعاء کی صالح مسجد میں نماز جمعہ کے بعد امریکا اور اسرائیل کے خلاف نعرے بلند کیے تھے۔
جس کے سبب حوثی برادری اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کا آغاز ہوا ۔ حکومت نے تقریباً 800طلباء کو امریکا مخالف مظاہروں کے سبب گرفتار کیا۔ 2004ء میں اس وقت کے صدر علی عبداللہ صالح نے حسین الحوثی کو مذاکرات کے لیے صنعاء مدعو کیا تھا، مگر انہوں نے دعوت ٹھکرا دی اور حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ صدر عبداللہ صالح نے فوج کو حکم دیا کہ حسین الحوثی کو گرفتار کر لیا جائے 10 ستمبر 2004 کو حسین الحوثی کو فوج نے گولی مار دی، مگر حوثی تحریک جاری رہی، 2010ء میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو حوثی جدوجہد تھم گئی تھی۔ 2011ء میں جب یمن میں انقلاب یاسمین نے دستک دی، تو حوثی بھی میدان میں اتر آء۔ انہوں نے نیشنل ڈائیلاگ کانفرنس میں شرکت کی تھی، مگر حوثی برادری نے گلف کو آپریشن کونسل کے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس کے تحت صدر عبداللہ صالح کو معافی دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جوں ہی اس قرارداد پر ہنگامہ شروع ہوا ، حوثی جنگجوؤں نے ایک بڑے خطہ پر قبضہ کر لیا جن میں صدا اور الجاز کے شہر شامل تھے، پھر آہستہ آہستہ حوثی جنگجوؤں نے صنعاء کا رخ کیا۔ شمالی یمن میں حوثی جنگجوؤں کی آمد نے یمن میں تناؤ پیدا کر دیا۔ 21 ستمبر 2014ء کو حوثی جنگجوؤں نے صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ تمام سرکاری عمارتوں اور ریڈیو پر حوثی جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول کر لیا۔ اس کے بعد حوثی جنگجوؤں نے 20 جنوری 2015ء کو صدارتی محل پر قبضہ کیا حالانکہ اس وقت صدر منصوری ہادی صدارتی محل میں موجد تھے، مگر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ ان کو صنعاء سے باہر کا راستہ دے دیا گیا جو عدن چلے گئے تھے۔ 6 فروری کو حوثی جنگجوؤں نے یمن پر قبضہ کرنے کیس ا تھ جنوبی یمن کے عدن کا رخ کیا۔ صنعاء میں حوثی جنگجوؤں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا اور پھر ریوولوشزی کمیٹی کو اقتدار سونب دیا۔ 20 مارچ 2015ء کو صنعاء کی البدر (حوثی) مسجد میں انسانی بم دھماکے ہوئے، جن میں 150 افراد مارے گئے جو کہ یمن میں داعش کی آہٹ تھی یا القاعدہ کا انتقام، جس کے ساتھ مسلکی تشدد کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ یمن کی تاریخ میں سب سے خوفناک دہشت گردانہ حملہ تھا، جس میں حوثی مسجد میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ 22 مارچ کو حوثی لیڈر عبدالملک الحوثی نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل دہشت گردوں کے پشت پناہی کر رہے ہیں اور عرب ممالک پر یمن میں بدامنی پھیلانے کا الزام لگایا۔ جب 27 مارچ کو حوثی جنگجوؤں نے سنی اکثریتی علاقوں کا رخ کیا تو سعودی عرب نے بحرین،قطر، کویت ، متحدہ عرب امارات ، مصر مراتش اور سوڈان کے ساتھ یمن پر حملہ کر دیا۔ اب یمن ایک بڑی جنگ کا میدان ہے حوثی برادری نے اس بات کو کھلے عام تسلیم کیا تھا کہ ایران کا ان پر بہت گہرا اثر ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حوثی جنگجوؤں کا انداز، مزاج اور حکمت لبنان کے گوریلا گروپ حزب اللہ کی طرح ہے، دونوں گروپ مذہبی بنیاد پر ہیں اور دونوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیدی برادری مذہبی امور اور رسموں میں سنیوں سے یکسانیت رکھتی ہے۔ اب حوثی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب کی وہابی تحریک کے خلاف ہیں اور یمن میں اس کو پھیلنے نہیں دیں گے۔ حوثی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ یمن میں حکومت نے ہمیشہ امتیاز برتا ہے اور منظم طور پر نسل کشی کرنے کی کوشش کی ہے۔ صنعاء پر قبضہ سے قبل حوثی جنگجوؤں پر سعودی عرب یہ الزام عائد کرتا تھا کہ وہ ایران کی پشت پناہی کے سبب یمن میں بدامنی پیدا کر رہے ہیں،لیکن حوثی جنگجوؤں کا الزام یہ ہے کہ یمن کی حکومت شیعہ مخالف طاقتوں کے اشارے پر انہیں نشانہ بنا رہی ہے۔ القاعدہ کو بھی اسی لیے ڈھیل دی گئی کو حوثی برادری کو نشانہ بنا سکے۔ بہر حال جب 2004ء میں حوثی تحریک نے جنم لیا تھا، تویمن کے صدر عبداللہ صالح نے ایران پر حکومت کے خلاف بغاوت کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن لیڈر ان اس وقت بھی اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ نہ تو صدر کے خلاف ہیں اور نہ ہی نظام کے خلاف ۔ حوثی تو صرف اپنے فرضہ کو لاحق خطرات کے خلاف متحدہوئے ہیں۔
فروری 2015ء میں ایک امریکی میگزین نے حوثی جنگجوؤں پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھی کہ حوثی دراصل حکومت کی بدعنوانیوں ، مہنگائی، بے روزگاری اور جانبداری کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ایک حوثی لیڈر حسین البخاری کے مطابق ’’حوثی دراصل ایک جمہوری نظام کے حق میں ہیں۔ ایک ایسا سیاسی نظام جس میں خواتین کی بھی نمایاں حصہ داری ہو۔ کسی عالم یا مولوی کی قیادت والی حکومت منظور ہی نہیں۔ خواہ وہ ایران کی طرز پر کیوں نہ ہو۔‘‘ یمن میں ایسا مذہبی نظام ممکن نہیں، کیونکہ ملک میں سنیوں کی تعداد زیدی برادری ہے۔ پچھلے سال ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر علی اکبر ولایتی نے کہا تھا کہ ’’ہم کو امید ہے کہ انصار اللہ یمن میں وہی کردار نبھائیں گے جو لبنان میں حزب اللہ کا ہے۔‘‘ صنعاء پر قبضہ کرنے کے بعد ہی حوثی جنگجوؤں کی طاقت کا اندازہ ہو سکا اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے بجلی کی طرح یمن پر حملہ کر دیا، تاکہ حوثی جنگجوؤں کو جنوبی یمن پر پرچم لہرانے سے روکا جاسکے، جو صنعاء پر قابض ہونے کے بعد کروڑوں ڈالر کی مالیت کے امریکی ہتھیاروں کو حاصل کر چکے ہیں۔ یہ امریکی ہتھیار یمن کو انقلاب یاسمین سے قبل 2010ء یمن کی حکومت کو سپلائی کئے تھے۔ اب حوثی جنگجوؤں کا نشانہ عدن پر ہے ، مگر سعودی عرب کی زبردست بمباری نے جنگجوؤں کی پیش قدمی کو سست ضرور کر دیا ہے، لیکن شمالی یمن کو حوثی جنگجوؤں سے آزاد کرانا اب بھی مشکل ہے۔
انٹرنیشنل ڈیسک